آج کل ’مون لائٹنگ‘ یعنی ایک ساتھ دو کمپنیوں میں کام کرنے کا عمل موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ کچھ کمپنیوں نے ایسے ملازمین کے خلاف سخت اقدام اٹھائے ہیں جنھیں ’مون لائٹنگ‘ میں ملوث پایا گیا ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق ٹیک کمپنی ’وِپرو‘ نے اپنے 300 ملازمین کو مون لائٹنگ کرتے ہوئے پکڑے جانے کے بعد ملازمت سے نکال دیا ہے۔ وپرو کے چیئرمین رشد پریم جی نے اس سلسلے میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جانکاری دی۔ انھوں نے کہا کہ ’’300 ملازمین جو وپرو میں ملازمت کر رہے تھے، گزشتہ کچھ مہینوں سے انھیں حریف کمپنی میں کام کرتے ہوئے پایا گیا، جو کمپنی کے اقدار کے خلاف ہے۔ جس کے سبب انھیں ملازمت سے نکال دیا گیا ہے۔‘‘
Published: undefined
یہ بیان رشد پریم جی نے ’اے آئی ایم اے‘ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ انھوں نے کہا کہ کوئی شخص وپرو میں کام کرتے ہوئے کسی دیگر حریف کمپنی میں بھی کام کرے، وپرو میں ایسے ملازمین کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس طرح کی خلاف ورزی کے بعد ایسے ملازمین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انھیں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔
Published: undefined
دراصل آئی ٹی سیکٹر میں مون لائٹنگ کا معاملہ کورونا بحران میں تیزی کے ساتھ بڑھا ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ کئی لوگ ورک فروم ہوم کلچر میں لوگ گھر سے ایک ساتھ دو کمپنیوں کے لیے کام کر زیادہ آمدنی کو ترجیح دینے لگے۔ لیکن وپرو کے چیئرمین نے گزشتہ دنوں آئی ٹی سیکٹر میں مون لائٹنگ پریکٹس کو پوری طرح سے دھوکہ دہی قرار دیا تھا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ ’’ٹیک انڈسٹری میں ان دنوں ملازمین کا مون لائٹنگ موضوعِ بحث ہے۔ بالکل واضح اور آسان طریقے سے کہنا چاہتا ہوں، یہ پوری طرح دھوکہ دہی ہے۔‘‘
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں ملک کی مشہور آئی ٹی کمپنی انفوسس نے بھی اپنے ملازمین کو مون لائٹنگ یعنی دو مقامات پر ایک ساتھ ملازمت کرنے کو لے کر متنبہ کیا ہے۔ انفوسس نے گزشتہ 12 ستمبر کو ’نو ڈبل لائیوز‘ عنوان کے ساتھ ملازمین کو ای میل بھیجا ہے۔ کمپنی نے ای میل میں کہا ہے کہ دو مقامات پر ایک ساتھ ملازمت کرتے ہوئے پائے جانے پر ملازم کے خلاف ڈسپلنری کارروائی کی جائے گی، ساتھ ہی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined