ہمارے ملک میں مظالم اور ناانصافیوں کے نئے نئے ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس کا تازہ ثبوت کشمیر کے ان 3 شہریوں سے ہے جن کی زندگی کے ایک، دو نہیں بلکہ 23 قیمتی سال تباہ کردیئے گئے۔ جوانی، زندگی کا وہ پڑاؤ ہوتا ہے جب جسم میں کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے اور اس کو پورا کرنے کی طاقت اور توانائی بھی ہوتی ہے لیکن اگر کسی کی جوانی جیل کی چہار دیواریوں کے اندر قیدی بن کر گزر جائے، پھر دو دہائی گزرنے کے بعد ایک دن اسے رہا کر دیا جائے اور بتایا جائے کہ تمہارے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے، اس لئے رہا کیا جاتا ہے۔ ایسا ہی کشمیرکے 3 شہریوں محمد علی بھٹ (49 )، لطیف ( 40) اور مرزا نثار (44) کے ساتھ ہوا ہے۔ اپنی پوری جوانی جیل میں گزارنے کے بعد علی محمد بھٹ، لطیف اور مرزا نثار کوجرم ثابت نہ ہونے کے سبب عدالت نے رہا کر دیا ہے۔
Published: 04 Aug 2019, 7:10 PM IST
نیپال بھی وہ ملک ہے جہاں سے ہندوستانی ریاستوں میں ہونے والے جرائم کے سلسلے میں گرفتاریاں کی جاتی ہیں ۔ان سبھی کو 1996 میں دہلی کے لاجپت نگر اور سروجنی نگر میں ہوئے بم دھماکوں میں شامل ہونے کے شک میں دہلی پولس نے گرفتار کیا تھا۔ تینوں کو راجستھان پولس نے بعد میں اس الزام میں ماخوذ کیا کہ انہوں نے ونوسا کے مقام پر ایک بس کو نشانہ بنایا تھا۔ لاجپت نگر والے کیس میں دہلی ہائی کورٹ نے ان تینوں کو 2012ء میں بری کردیا تھا لیکن ان کو جیل میں رہنا پڑا کیونکہ راجستھان ہائی کورٹ نے ان کے خلاف چل رہے مقدمہ کا فیصلہ نہیں سنایا تھا۔ حال ہی میں فیصلہ آنے کے بعد ان تینوں کو بری کردیا گیا۔
Published: 04 Aug 2019, 7:10 PM IST
لطیف احمد کے مطابق ہم کو کاٹھمنڈو سے گرفتار کیا گیا جہاں ہم کشمیری دستکاروں کے تیار کیے ہوئے سامانوں کو فروخت کر رہا تھا، ہم سب بے قصور تھے۔ جب کوئی نیپال میں ہو تو وہ دہلی یا راجستھان میں بم کا استعمال کس طرح کرسکتا ہے لیکن ناکردہ گناہ میں ہم پرجس طرح کے مظالم کے پہاڑ توڑے گئے وہ ناقابل بیان ہیں۔ ہم سے سادے کاغذوں پر دستخط کرائے گئے۔ بات صاف ہے کہ ہم کو زبردستی قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
Published: 04 Aug 2019, 7:10 PM IST
متاثرہ افراد کی گرفتاری سے قبل اور رہائی کے بعد کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوئیں جنہیں دیکھ کر ان لوگوں کی تکلیف اور بے بسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس وقت انہیں گرفتارکیا گیا تھا یہ سبھی عالم جوانی کے آخری دور میں تھے۔ انہیں کاٹھمنڈو سے گرفتار کیا گیا تھا جہاں وہ کبھی کبھی کشمیری دستکاری کا سامان فروخت کرنے جایا کرتے تھے، لیکن گرفتاری نے ان لوگوں سے جہاں والدین اور قریبی دوست چھین لئے وہیں پھلتا پھولتا کاروبار پوری طرح تباہ ہو گیا، ایسی حالت میں رہائی کا پروانہ پانے والے افراد بظاہرعدالت کے فیصلے سے خوش ہوں گے لیکن ان کے دلوں میں یہ سوال بھی ہوگا کہ جب زندگی کے قیمتی سال برباد ہو رہے تھے تب عدالت خاموش کیوں تھی؟علی اور ان کے دیگرساتھیوں کے ان 23 سالوں کو کون واپس لے کر دلائے گا اور اب یہ لوگوں کیا کریں گے؟ متاثرہ افراد اس بات سے بھی خوش ہوں گے کہ آخر میں کم از کم انصاف تو ملا، لیکن کیا سچ میں اسے انصاف کہا جانا چاہیے؟ اگر یہ انصاف ہے تو انہوں نے اس فیصلے کے لئے بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔
Published: 04 Aug 2019, 7:10 PM IST
محمد علی بھٹ 23 سال کی غیر حاضری کے بعد اپنے وطن اسی ہفتہ کے شروع میں پہنچے تو ان کا استقبال کرنے والا کوئی شخص نہیں پہنچا۔ ان کی زندگی دہلی اور راجستھان کے قیدخانوں میں گزری اور ان کے والدین ان کو یاد کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ محمدعلی بھٹ کی والدہ کا انتقال 2002 میں ہوا اور والد کی وفات 2015 میں ہوئی۔ گرفتاری کے وقت محمدعلی کی عمر15سال تھی، اب ان کی عمر 48 سال ہے۔ گھر پہنچنے محمدعلی سیدھے قبرستان گئے جہاں والدین کی قبروں پر گر کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ اس نے کہا کہ میری آدھی زندگی اس ناانصافی کی نذر ہوگئی میں بالکل ٹوٹ چکا ہوں۔ میرے والدین میری دنیا تھے اور دونوں رخصت ہوگئے۔ اس کی ذمہ داری کون لے گا۔
Published: 04 Aug 2019, 7:10 PM IST
فتح کدل کے رہنے والے نثار نے کہا کہ جب ہم جیل میں تھے تو وقت تھم گیا تھا لیکن باہر کی دنیا متحرک تھی۔ میرے خیال میں اس نئی زندگی کا عادی بننے کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا۔ یہ آزادی بہت مہنگی قیمت پر ملی ہے۔
Published: 04 Aug 2019, 7:10 PM IST
اس دردناک واقعہ پر میڈیا کے ایک طبقے کو گویا سانپ سونگھ گیا ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جس نے مذکورہ افراد کی گرفتاری کے وقت دہلی کو دہلانے والا خونخوار دہشت گرد کہا تھا مگر اب جب یہ لوگ بے قصور ثابت ہوئے ہیں تب وہی میڈیا انہیں بے گناہ کہنے کو تیار نہیں ہے۔ کوئی اور جمہوری ملک ہوتا تو وہاں اس خبر پر تہلکہ مچ جاتا کہ 23 سال تک بے قصور جیل میں رکھا گیا اور بے داغ رہائی ہوئی، اس کے بعد ان کی کوئی تلافی بھی نہیں کی گئی۔
Published: 04 Aug 2019, 7:10 PM IST
مرکز کی بی جے پی حکومت اپنے دعوے کے مطابق اگر واقعی دہشت گردی کے خلاف ’زیروٹالرینس‘ کی پالیسی پر چل رہی ہے تو ان بے گناہوں کی تلافی اوراصل دہشت گردوں کو سزا دلا کر اپنے قول کا ثبوت دے۔ اس سلسلے چند اردو اخبارات نے ہمت دکھائی اور بڑی بڑی خبریں شائع کیں لیکن پارلیمنٹ کے اجلاس میں قوم کا رونا رونے والے ایک بھی ممبر پارلیمنٹ کو اس بدترین بے انصافی کا ذکر کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ان حالات میں صاف ہے کہ ملک کی حکمراں یا غیر حکمراں قیادت سے کوئی امید کرنا بیکار ہے۔ اب لے دے کے عدلیہ پر نظر جاتی ہے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے بہت امیدیں ہیں۔ لیکن یہی عدالت حال ہی میں اپنی بے بسی ظاہر کر چکی ہے کہ مفاد عامہ کے بے شمار معاملات سے کس طرح نپٹا جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مفادعامہ کے فروعی معاملات کو سختی سے مسترد کیا جائے اور صرف انتہائی بھیانک مسائل کی جانب توجہ کی جائے۔
Published: 04 Aug 2019, 7:10 PM IST
طویل جیل بندیوں کے سلسلے میں یہ حکم جاری کیا جاسکتا ہے کہ دس سال سے زیادہ قید رہنے والوں کی فہرست عدالت کے سامنے پیش کی جائے پھر ان میں سے مستحق معاملات میں کم از کم ایک کروڑ روپئے لواحقین میں ہر شخص کو دینے کا حکم جاری کیا جائے، متبادل ملازمت اور مکان کے سلسلے میں بھی حکم جاری کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور مسئلہ ایسا ہے جو بہت توجہ طلب ہے وہ یہ کہ ایسے کون لوگ ہیں جو فتنہ وفساد والے عناصر کی نمائندگی کرتے ہوئے بے قصور لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں ماخوذ کرتے ہیں۔ کاٹھمنڈو میں تجارت کرنے والے کشمیری لوگوں پر دہلی میں بم پھینکنے کا الزام لگانا انتہائی مہمل بات ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مظلوموں کی داد رسی کے سلسلے میں زیادہ توجہ ہونا چاہیے۔ مقننہ اور انتظامیہ سے ہٹ کر عدلیہ سے بہت مدد مل سکتی ہے اور بہت سہارا مل سکتا ہے۔ حکومتوں کا ہر فیصلہ ووٹ بینک پر منحصر ہوتا ہے جب کہ انسانیت ہر ووٹ بینک کی سیاست سے بالاتر ہے۔ اس لئے اس انسانیت کی سربلندی کے بارے میں جس قدرعدالتیں فکر کرسکتی ہیں، ویسا کوئی اور نہیں کرسکتا ہے۔
Published: 04 Aug 2019, 7:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 04 Aug 2019, 7:10 PM IST
تصویر: پریس ریلیز