بریلی: بریلی میں نقلی ریمیڈیسیور انجکشن کی کالابازاری کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ڈبے پر 5400 روپے قیمت درج ہے، لیکن تیمارداروں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر دو نقلی انجکشن 90 ہزار روپے میں فروخت کیے گئے۔ مریض کی موت کے کئی دن بعد گھر والوں کو پتہ چلا کہ انجکشن نقلی تھے۔ حالانکہ اس انجکشن (کووی پری) کے بارے میں ایک ہفتہ پہلے ہی پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) فیکٹ چیک کر کے ٹوئٹر پر بتا چکا ہے کہ یہ نقلی ہے لیکن بریلی میں ڈرگ محکمہ کے افسر کہہ رہے ہیں کہ شیشی خالی ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انجکشن اصلی تھا یا نقلی۔ پولس نے میڈیکل اسٹور کے مالک کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے، لیکن وہ پولس کے پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہو چکا تھا۔
Published: undefined
دراصل فتح گنج مغرب کے محلہ ساہوکارا باشندہ منوج اگروال کی طبیعت 19 اپریل کو خراب ہوئی تھی۔ اس کے بعد 26 اپریل کو جانچ رپورٹ سے پتہ چلا کہ انھیں کورونا ہوا ہے۔ گھر والوں نے بریلی کے ایک پرائیویٹ اسپتال (اپیکس ہاسپیٹل) میں داخل کرایا۔ ڈاکٹر نے گھر والوں کو بتایا کہ منوج اگروال کو ریمیڈیسیور انجکشن دینا پڑے گا۔ منوج اگروال کے بیٹے سنسکار نے فتح گنج مغرب کے منوہر میڈیکل اسٹور سے 90 ہزار روپے میں دو ریمیڈیسیور انجکشن خریدے۔ منوج اگروال کی حالت مزید بگڑنے لگی تو گھر والے انھیں دہلی لے گئے جہاں نیاتی سپر اسپیشلٹی ہاسپیٹل میں 12 مئی کو وہ انتقال کر گئے۔
Published: undefined
منوج کی آخری رسومات اور دیگر رسوم کے بعد ان کے بیٹے سنسکار اگروال نے انجکشن کے ڈبے کو دیکھا تو شبہ ہوا۔ وہ 8 جون کو بریلی کے ایس ایس پی منوج سجوان سے ملے، جنھوں نے ڈرگ انسپکٹر سے جانچ کرائی۔ انجکشن کے ڈبے پر برانڈ کا نام ’کووی پری‘ اور قیمت 5400 روپے درج ہے۔ اس کے علاوہ ’میک اِن اںڈیا‘ کا لوگو بھی چھپا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر ڈرگ سنجے کمار کا کہنا ہے کہ انجکشن کی شیشی خالی ہے اور بغیر سیمپل کے یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ انجکشن اصلی تھے یا نقلی۔ جس کمپنی کی پیکنگ ہے وہ تین سال پہلے ہی بند ہو چکی ہے۔ بریلی میں اس کمپنی کا کوئی مال نہیں آیا۔
Published: undefined
اس جانکاری کے بعد پولس نے منوہر میڈیکل اسٹور کے انمول اور پریانک اگروال کے خلاف مقدمہ تو درج کر لیا لیکن پولس کے پہنچنے سے پہلے ہی دونوں میڈیکل اسٹور بند کر کے فرار ہو چکے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس انجکشن کی شیشی خالی ہونے کی وجہ سے اسسٹنٹ کمشنر ڈرگ یہ بتانے میں ناکام ہیں کہ دوا اصلی تھی یا نقلی، اس کے بارے میں ایک ہفتہ پہلے ہی پی آئی بی ٹوئٹر کے ذریعہ جانکاری دے چکا ہے کہ یہ انجکشن (کووی پری) نقلی ہے۔
Published: undefined
یکم مئی کو ہی دہلی پولس کی کرائم برانچ کی ڈی سی پی مونیکا بھاردواج نے ٹوئٹ کر کے بتایا تھا کہ ’کووی پری‘ نام کا کوئی ریمیڈیسیور انجکشن نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ اس جعلسازی کے پورے ریکٹ کا پردہ فاش ہو چکا ہے، لیکن کچھ انجکشن اب بھی بازار میں ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد 3 مئی کو پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) نے فیکٹ چیک کر کے ٹوئٹر پر جانکاری دی تھی کہ ’کووی پری‘ نام کا کوئی ریمیڈیسیور انجکشن نہیں ہے۔
Published: undefined
چونکہ سنسکار اگروال نے یہ انجکشن اپریل میں خریدے تھے لہٰذا کوئی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ ان کا معاملہ فیکٹ چیک سے پہلے کا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ 26 اپریل کو بھی آئی پی ایس مونیکا بھاردواج ٹوئٹر پر ایک اور نقلی انجکشن کے بارے میں جانکاری دے چکی تھیں۔ انھوں نے بتایا تھا کہ ’کووی فار‘ برانڈ کے نقلی انجکشن بنا کر بیچے جا رہے ہیں۔ مونیکا بھاردواج نے ایک-دو نہیں بلکہ پورے نو پوائنٹ بتائے تھے جن کی بنیاد پر اصلی-نقلی کی پہچان کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ملک بھر سے نقلی ریمیڈیسیور انجکشن پکڑے جانے کی خبریں آ رہی تھیں۔ پھر بھی بریلی میں نقلی انجکشن فروخت ہوتے رہے اور یہاں افسروں کو کچھ پتہ نہیں چلا۔ حد یہ ہے کہ اب بھی افسر یہی کہہ رہے ہیں کہ شیشی میں دوا نہیں ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انجکشن اصلی تھا یا نقلی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined