عدالت عظمیٰ میں آج ایک بار پھر تعلیمی ادروں میں حجاب پہننے پر پابندی کے خلاف داخل عرضی پر سماعت ہوئی۔ اس دوران عرضی دہندہ کی طرف سے پیش وکیل حذیفہ احمدی نے دعویٰ کیا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد تقریباً 17 ہزار طالبات نے اسکول چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ یہ ڈراپ آؤٹ حجاب پر پابندی لگانے کے بعد ہی دیکھنے کو ملا ہے، یعنی حجاب پر پابندی کا اثر مسلم طالبات کی تعلیم پر پڑنا شروع ہو گیا ہے۔
Published: undefined
بدھ کے روز سماعت کے دوران حذیفہ احمدی سے جسٹس سدھانشو دھولیا نے سوال کیا تھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی نمبر ہے کہ کتنی طالبات نے حجاب پر پابندی کے بعد اسکول جانا ترک کر دیا ہے؟ اس پر احمدی نے کہا کہ ’پی یو سی ایل‘ کی رپورٹ کے مطابق 17 ہزار طالبات نے ڈراپ آؤٹ کیا اور وہ امتحان میں بھی نہیں بیٹھ پائیں۔ احمدی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی وجہ سے کئی طالبات اسکولی تعلیم سے محروم ہو گئی ہیں۔
Published: undefined
وکیل حذیفہ احمدی نے تنوع کو لے کر بھی کئی دلائل سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے۔ انھوں نے کہا کہ کسی کا حجاب پہننا دوسرے کو غلط کیسے لگ سکتا ہے! وہ کہتے ہیں کہ ریاست کا کام تنوع کو فروغ دینا ہے، نہ کہ رسموں پر روک لگانا۔ کسی کو ایسا کیوں محسوس ہونا چاہیے کہ کسی کا مذہبی عمل سیکولر تعلیم یا اتحاد میں رخنہ ڈالتے ہیں؟ اگر کوئی حجاب پہن کر اسکول جائے تو کوئی دوسرا کیوں ناراض ہو؟ دوسرے طالب علم کو مسئلہ کیوں ہونا چاہیے؟ اگر یہ اُکساتا ہے، تو آپ کو اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ ورنہ آپ کسی کو دھمکانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ حکومت شاید چاہتی ہے کہ کیمپس میں ایسا ہی ہو۔ یہ کہنا کہ مجھے کسی اور کا حجاب پہننا منظور نہیں ہے، یہ آئین میں شامل بھائی چارہ کی سوچ کے برعکس ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی اس سوچ کو وسعت دیتی ہے کہ اسکول تنوع اور ناقدانہ سوچ کو قبول کرتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined