نئی دہلی: اردو اداروں پر اردو کے غاصبوں کا قبضہ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے مشہور نقاد ادیب، شاعر اور استاذ پروفیسرمظفر حنفی نے کہا کہ اردو کی زبوں حالی کی وجہ مخلص اور صلاحیت مند لوگوں کو نظرانداز کیا جانا ہے۔ یہ بات انہوں نے بزم صدف انٹرنیشنل کی جانب سے بین الاقوامی ادبی ایوارڈ ملنے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہی۔ پروفیسر حنفی کے ساتھ پاکستان نژاد ڈاکٹر ثروت زہرہ کو نئی نسل کا انعام دیا گیا۔
Published: undefined
انہوں نے ایوارڈ کے لئے بزم صدف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ بغیر لابنگ اور جوڑ توڑ کے بغیر ایوارڈ ملنا واقعی خوشی کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایوارڈ ملنے کی صورت حال اس قدر خراب ہوگئی ہے کہ حقدار کو ایوارڈ نہیں مل پاتا اور لابنگ کرنے والے اور کم اہل لوگ ایوارڈ اڑا لے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت حال کی وجہ سے ایوارڈ کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے الزام لگایا کہ سرکاری ایوارڈ دو نجی ہاتھوں میں سمٹا ہوا ہے اور ایسے لوگوں کو ایوارڈ دیا جاتا ہے جن کے پاس کتاب نہیں ہے اور ہے بھی تو بہت ہی کمتر درجے کی ہے۔ ایسے لوگوں کو ایوارڈ دیا جانا مضحکہ خیزبات ہے اور ایوارڈ کے وقار کے منافی بھی۔
Published: undefined
پروفیسر مظفر حنفی نے کہا کہ اس دور میں جبکہ لوگ چھوٹے چھوٹے انعام کے لیے جوڑ توڑ کرتے ہیں اور کام کرنے والے لوگوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اس جوڑ توڑ کے زمانے میں بھی کچھ لوگ ابھی ایمانداری سے فیصلے کرتے ہیں جس کے لیے بزم صدف کا شکریہ۔ واضح رہے کہ بزم صدف انٹرنیشنل نے پروفیسر مظفر حنفی کو بین الاقوامی ادبی ایوارڈ اور ڈاکٹر ثروت زہرہ کو نئی نسل کا انعام دینے کا فیصلہ کیا ہے جو 23-24 جنوری 2020 کو قطر میں عالمی سیمنار میں دیا جائے گا۔
Published: undefined
پروفیسر مظفر حنفی نے کہا کہ انعامات سے کوئی فرق نہیں پڑتا اصل فیصلہ تو وقت کرتا ہے لوگوں کو اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ہر جگہ ایسے ایسے لوگوں کا انعام دیئے گے جو اس کے اہل نہیں تھے چاہے وہ ساہتیہ اکادمی ہو یا اردو اکادمی ہر جگہ ایک سا حال ہے گروپ بندی اور مانگ کر انعام لابی بنا کر حاصلِ کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے پانچ ہزار روپے کے ایوارڈ سے ادبی وقار میں اضافہ ہوتا تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اب ایوارڈ فروخت کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں یوپی اردو اکیڈمی ایوارڈ کی بندر بانٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ اکیڈمی کے ذمہ داروں نے خود ہی ایوارڈ بانٹ لئے۔
Published: undefined
خیال رہے کہ یکم اپریل 1936کو مدھیہ پردیش کے کھنڈوہ میں پیدا ہونے والے 83 سالہ پروفیسر مظفر حنفی ادب کی مختلف صنفوں میں یکساں قدرت رکھنے کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ تنقید، تحقیق، شاعری کے ساتھ انہوں نے مخلف ادبی صنف میں کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔ شاد عارفی سے انہوں نے شاعری کے رموز سیکھے اور پروفیسر عبدالقوی دسنوی کی نگرانی میں تحقیق کا کام انجام دیا۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر اور کلکتہ یونیورسٹی کے اقبال چیئر کے ہیڈ رہ چکے ہیں۔ وہ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان پر پانچ پی ایچ ڈی ہوچکی ہے اور سیکڑوں مضامین لکھے جاچکے ہیں۔
Published: undefined
ڈاکٹر ثروت زہرہ 5مئی 1972 کو پاکستان میں پیدا ہونے والی ڈاکٹر ثروت زہرہ پیشے سے ڈاکٹر ہیں اور شارجہ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں اپنے فرض منصبی انجام دے رہی ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے ’جلتی ہوا کا گیت‘ اور ’وقت کی قید‘ شائع ہوچکے ہیں۔ ہندی اور سندھی میں بھی ان کے شعری مجموعے کے ترجمے ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ بزم صدف نے اس سے پہلے بھی مجتبٰی حسین کو انعام دیا تھا جو اس کے مستحق تھے۔ اس کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان کے متعدد اہم شخصیات کو ایوارڈ دیا جاچکا ہے۔اس ایوارڈ کا اعلان قطر میں اس کے سرپرست صبیح بخاری، چیرمین شہاب الدین اور پٹنہ میں اس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر صفدار امام قادری نے کیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز