اگر اٹھارویں صدی کو ناخدائے سخن میر تقی میر کی صدی کہا جائے تو انیسویں صدی کو بلا شبہ مرزااسد اللہ خاں غالب کی صدی کہنا پڑے گا۔ غالب نے جس عہد میں آنکھیں کھولیں وہ بڑا پرآشوب تھا۔ مسلم حکومت اور اس کا جاہ وجلال سب کچھ تاریخ کے صفحات میں گم ہونے کو بے چین تھا اور نئے مگر غیر ملکی فرماں روا صریرآرائے سلطنت ہو رہے تھے۔ ان حالات کے جبر کا اثر غالب کی فکر پر بھی پڑا جس کا اظہار ان کی شاعری اور نثر دونوں میں ہوا ہے۔ غالب کی عظمت کو ان کے عہد میں نہیں پہچانا گیا جس پر وہ تازندگی افسوس کرتے رہے۔ لیکن ان کے بعد اور بالخصوص بیسویں صدی کے وسط میں ان کو ان کے جائز منصب پر فروکش کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ جہاں غالب کی زندگی اور ان کے فکر و فن پر تحقیقات کا سلسلہ تیز ہوا وہیں ان کی یادوں کو دوام بخشنے کے لیے ان کے نام پر متعدد ادارے قائم ہوئے اور ان کے یوم پیدائش اور یوم وفات کو بڑے پیمانے پر منایا جانے لگا۔ غالب یوں تو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے لیکن ان کی زندگی دار الحکومت دہلی میں گزری۔ اسی لیے انھیں مرزا اسد اللہ خاں غالب دہلوی کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دہلی پر یہ فرض تھا کہ وہ غالب کے شایان شان ان کی یادگاریں قائم کرتی۔ اس فرض کی ادائیگی سے سبک دوش ہونے کے لیے یہاں ان کے نام پر کئی ادارے قائم کیے گئے ہیں جن میں غالب اکیڈمی اور غالب انسٹی ٹیوٹ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ایک طویل قانونی اور سیاسی جد و جہد کے بعد غالب کی حویلی کے ایک حصے کو بازیاب کرایا گیا ہے جہاں ان کو مختلف طریقوں سے متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حضرت نظام الدین میں واقع غالب اکیڈمی کے زیر سایہ غالب کا مزار بھی ہے جس پر ان کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر گل پوشی کی جاتی ہے اور مختلف پروگراموں کے توسط سے انھیں یاد کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں ہم کوشش کریں گے کہ دہلی میں غالب کے نام پر جو ادارے قائم ہیں ان کی تفصیلات پیش کی جائیں اور ان پر تنقیدی نظر بھی ڈالی جائے۔
Published: undefined
غالب کی حویلی گلی قاسم جان بلی ماران میں واقع ہے۔ یہ حویلی ان کے زمانے میں بہت بڑی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کا رقبہ 412 گز تھا اور یہ گلی قاسم جان سے لے کر کٹرہ عالم بیگ تک پھیلی ہوئی تھی۔ بعد میں اس کے کئی مالک اور کرایہ دار بدلے۔ لیکن آخر میں دہلی حکومت نے اسے نیلام کر دیا تھا۔ معروف قلمکار اور سماجی کارکن فیروز بخت نے متعدد مقامی شخصیات کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’حویلی کے دوسرے حصے کے بارے میں مسرور خان نے بتایا کہ 1960کی دہائی میں اس کو حکیم محمد شریف نے جو کہ کانگریس پارٹی سے اس علاقہ کے کارپوریشن ممبر تھے، محمد ابراہیم کو فرو خت کر دیا تھاجنہوں نے یہاں لکڑی اور کوئلے کی ٹال کھول دی ۔ اس کے بعد جب مٹی کے تیل اور گیس کے چولھوں کا رواج بڑھا تو انہوں نے لکڑی کا کام چھوڑ کر بلڈنگ بنانے کا سامان فروخت کرنا شرو ع کر دیا‘‘۔
Published: undefined
فیروز بخت اور ایک قانون داں اطیب صدیقی نے حویلی کی بازیابی کے لیے عدالت میں ایک پٹیشن داخل کی۔ ایک طویل عرصے کی قانونی جنگ کے نتیجے میں بالآخر 8 اگست 1997 کو جسٹس چندر موہن نیر نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ دہلی حکومت چھ ماہ کے اندر غالب کی رہائش گاہ کو محفوظ کر کے اس عظیم شاعر کے شایانِ شان ایک یادگار قائم کرے۔ بہر حال 15 فروری 2000 کو دہلی حکومت نے حویلی میں ایک تقریب کا اہتمام کرکے اسے عوام کو وقف کر دیا۔ اس تقریب میں دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دیکشت اور لیفٹننٹ گورنر سمیت متعدد سیاسی، سماجی و ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ بقول فیروز بخت انھیں اس تقریب کا دعوت نامہ تک نہیں بھیجا گیا۔ اس طرح 412 گز کی ا س حویلی کے محض 130 گز کو واگزار کیا گیا اور اس میں غالب میوزیم قائم کیا گیا۔ جس کا مقصد غالب کی یاد کو زندہ رکھنا اور اہل ذوق سے اس عظیم شاعر کو متعارف کرانا ہے۔
Published: undefined
ہم نے اس حویلی کی یوں تو بارہا زیارت کی ہے اور غالب کے شایانِ شان انتظام کے فقدان پر آنسو بہائے ہیں۔ لیکن یہاں غالب اور کلام غالب کے ساتھ کی جانے والی زیادتی ہمارے دیدۂ بینا سے اکثر و بیشتر اوجھل ہی رہی۔ لیکن حالیہ دنوں میں جب ہم ایک بار پھر زیارتِ حویلی کو گئے تو کئی باتوں نے ہمیں مایوس کیا۔ ہمارے ایک دیرینہ دوست، روزنامہ قومی آواز کے سابق کارکن اور ہمسایۂ غالب ریحان ہاشمی نے جب ہماری توجہ بدانتظامیوں کے ساتھ ساتھ غالب اور کلام غالب کے ساتھ کیے جانے والے بھونڈے مذاق کی طرف مبذولی کرائی تو ہم واقعی ششدر رہ گئے۔
Published: undefined
حویلی میں غالب اور ان کی زندگی کے بارے میں تفصیلات اور متعدد اشعار اردو اور ہندی میں دیواروں پر آویزاں ہیں اور نیچے انگریزی میں ان کے ترجمے دیے ہوئے ہیں۔ لیکن کئی اشعار میں فاش غلطیاں نظر آئیں۔ غالب کا ایک شعر ہے: ’’کوئی ویرانی سی ویرانی ہے، دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا‘‘۔ یہ شعر ایک دیوار پر آویزاں ایک بڑے بورڈ پر کئی تصاویر کے ساتھ ساتھ اردو اور ہندی میں لکھا ہوا ہے اور نیچے انگریزی میں اس کا ترجمہ دیا ہوا ہے۔ جب ہم نے شعر پر غور کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ مصرعہ ثانی غلط ہے اور یوں لکھا ہوا ہے: ’’گھر کو دیکھ کر دشت یاد آیا‘‘۔ کیا تیا پانچہ کیا گیا ہے مصرعے کا۔ ایسا لگتا ہے جیسے بد ذوق کاتبِ شعر نے عمداً غالب کا مذاق اڑایا ہے۔ اس کو شعر و سخن سے کوئی دلچسپی بھی نہیں۔ وہ کم از کم یہی دیکھ لیتا کہ مصرعہ بحر سے خارج ہو رہا ہے۔ خیر کاتبِ شعر کو کیوں برا بھلا کہیں جن مداحانِ غالب نے وہ بورڈ آویزاں کرایا کیا ان کو بھی اتنا شعور نہیں تھا کہ وہ اسے ایک بار پڑھ لیتے اور غلطی کی اصلاح کرا لیتے۔
Published: undefined
غالب کا ایک اور شعر یوں ہے: ’’اُگ رہا ہے در و دیوار پہ سبزہ غالب، ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے‘‘۔ یہ شعر ایک دوسری دیوار پر غالب کی دیوار پوش تصویر کے ساتھ اسی ہجم میں آویزاں ہے۔ غالب اس رنگین، بڑی اور خوبصورت تصویر میں نیم دراز ہیں، بائیں ہاتھ سے حقے کی نئے تھامے ہوئے ہیں اور دائیں ہاتھ سے ایک ڈائری پر کچھ لکھ رہے ہیں اور نیچے ایک موٹی سی کتاب رکھی ہوئی ہے۔ غالباً اس سے دیوان غالب کا تصور پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں جو شعر درج ہے اس کا مصرعہ اولیٰ یوں لکھا ہے:’’اُگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالب‘‘۔ اس میں ’’پہ‘‘ کو ’’سے‘‘ کر دیا گیا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک دوسری جگہ پر دیوان غالب کی پہلی غزل کے مصرعہ اولیٰ کو ہی غلط لکھا گیا ہے۔ ’’نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا‘‘ کو ’’نقشِ فریادی‘‘ لکھا گیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ غلطیاں اردو میں ہیں ہندی میں نہیں ہیں۔ اگر ہندی میں ہوتیں تو بات سمجھ میں آنے والی تھی اور صبر کرنے والی بھی تھی کہ ہندی کے بہت سے لوگ دیوانِ غالب کو ’’دیوانے غالب‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن اردو میں ایسی فاش غلطیاں ؟ اللہ کی پناہ۔ آج اگر غالب آجائیں اور ان غلطیوں پر ان کی نظر پڑ جائے تو یقیناً وہ اپنا سر پیٹ لیں گے اور ممکن ہے کہ وہ اپنا یہ شعر باآواز بلند پڑھتے ہوئے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوں: ’’حیراں ہوں دل کو رووں کہ پیٹوں جگر کو میں، مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں‘‘۔
Published: undefined
ہم مطمئن تھے کہ ہندی میں کوئی غلطی نہیں ہے لیکن بہت غور کے بعد ہندی میں بھی کئی غلطیاں نظر آگئیں۔ غالب کا ایک شعر یوں ہے: یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح، کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا۔ ہندی میں اس کے مصرعہ اولیٰ میں ’’یہ کہاں کی دوستی ہے‘‘ کو یہ کہاں ’’کہ‘‘ دوستی ہے‘‘ لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح ہندی میں یہ شعر بھی درج ہے: ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا، کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ اس کے دوسرے مصرعے میں ’’آگر اعتبار ہوتا‘‘ لکھا ہوا ہے۔ ایک اور شعر ہے: ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے، بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے۔ اس کے دوسرے مصرعے میں ’’مرے‘‘ غائب ہے اور شعر یوں درج ہے ’’بہت نکلے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے‘‘۔ چلیے یہ تو اشعار کی بات ہو گئی۔ حد تو تب ہو گئی جب ایک جگہ خود غالب کا نام غلط لکھا ہوا پایا گیا اور وہ بھی سب سے پہلے بورڈ پر۔ حویلی کے محراب نما دروازے سے جوں ہی اندر داخل ہوتے ہیں، بائیں جانب ایک بورڈ پر اردو، ہندی اور انگریزی میں مرزا غالب کا مختصر تعارف درج ہے۔ اردو میں مرزا ’’اسعد اللہ‘‘ خاں غالب لکھا ہوا ہے۔ ایسی فاش غلطی دیکھ کر جو کوفت ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔ اشعار کا جو حشر کیا گیا ہے وہ اپنی جگہ پر۔ کم از کم غالب کے نام کے ساتھ تو زیادتی نہ کی جاتی۔
Published: undefined
غالب کی اس حویلی میں بالکل ان کی اُسی کوٹھری کی مانند نیم تاریکی ہے جس میں وہ رمضان میں دن میں بیٹھ کر مصروف خورد و نوش رہا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر جب ان کے ایک قدردان نے ان کو محو خورد ونوش دیکھاتو اس نے ان سے کہا تھا کہ سنا ہے کہ رمضان میں شیطان قید کر لیا جاتا ہے تو انھوں نے برجستہ جواب دیا تھا کہ ’’ہاں! اور وہ جہاں قید کیا جاتا ہے وہ یہی کوٹھری ہے‘‘۔ ہم نے سوچا کہ یہاں کی کچھ تصاویر بطور یادگار اپنے موبائیل میں قید کر لیں مگر نیم تاریکی نے ہماری امیدوں پر پانی پھیر نے کی بھرپور کوشش کی۔ پھر خیال آیا کہ کیوں نہ یہاں کے چوکیدار سے اپنے موبائیل سے روشنی ڈالنے کو کہا جائے۔ ہم نے فرمائش کی کہ موبائیل کی ٹارچ سے ذرا روشنی ڈالیے، ہم حویلی کی کچھ یادگاریں قید کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے اپنے موبائیل کی ٹارچ روشن کی تو انکشاف ہوا کہ اس میں اتنی بھی جان نہیں ہے کہ وہ اس نیم تاریک حویلی کے کسی گوشے کو کم کم ہی سہی، روشن کر سکے۔ اس ٹارچ کو دیکھ کر میر کا یہ شعر زبان پر آگیا: ’’شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے، دل ہوا ہے چراغ مفلس کا‘‘۔ لیکن بہر حال ہم ان عجائبات کا تحفہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لہٰذا ہم نے کم روشنی ہی میں کچھ تصویریں اتاریں۔ آج کی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے اتنا تو فائدہ ہوا کہ ہلکے ہی سہی، ان عجائبات کے عکس ہم نے قید کر لیے۔ غالب بہت دور اندیش تھے۔ انھوں نے ایک بار انگریزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا مقابلہ اس قوم سے ہے جو ایک بٹن دبا کر تاریک کمرے میں اجالا کر دیتی ہے۔ آج اسی قوم کی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی نے ان کی تصویریں اتارنے میں ہماری مدد کی۔
Published: undefined
یہاں دالان میں شیشے کے دو شو کیسوں میں دیوان غالب کے بڑے بڑے نسخے محفوظ کیے گئے ہیں۔ ان کو دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ وہ غالب کے زمانے کے ہوں گے۔ بوسیدہ کاغذ اور بڑے حروف میں لکھاوٹ۔ یہ دیوان یا تو غالب ہی کے زمانے کا ہے یا پھر ان کے فوراً بعد کا ہے۔ وہ آج کا نہیں معلوم ہوتا۔ کیونکہ اس دور میں عام طور پر دو لفظوں کو ملا کر لکھنے کا چلن تھا۔ مثال کے طور پر سامنے جو غزل ہے اس میں نیم کش کو ’’نیمکش‘‘ لکھا ہوا ہے۔ یہاں ایک شو کیس میں اس وقت کے کچھ برتن رکھے ہوئے ہیں اور وہاں لکھا ہوا ہے کہ یہ اوریجنل نہیں ہیں بلکہ غالب کے دور میں استعمال ہونے والے برتنوں کے نمونے ہیں۔ یہاں ستم ظریفی کا ایک اعلیٰ ترین نمونہ بھی دیکھنے کو ملا۔ جس شو کیس میں برتن رکھے ہوئے ہیں اسی میں ایک کونے میں حویلی کی صفائی ستھرائی میں استعمال ہونے والا جھاڑو پونچھا بھی رکھا ہوا ہے۔ انجان شخص اس کو دیکھ کر کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ وہ بھی غالب کے عہد کے ہیں۔ اس شو کیس کے برابر میں دیوار میں شیشے کی ایک الماری بنی ہوئی ہے جس میں غالب سے متعلق کچھ کتابیں اور کچھ رسالے رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں بھی بد سلیقگی سے کام لیا گیا ہے۔ کتابیں اور رسائل گرد سے اٹے ہوئے ہیں۔ یہیں ایک گوشے میں غالب خوب اونچی ٹوپی زیبِ سر کیے ہوئے اور حقے کی نئے تھامے ہوئے دو زانو بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے ایک چھوٹی سی میز اور برابر میں ایک چھوٹا سا پاندان رکھا ہوا ہے۔ پشت کی طرف گاؤ تکیہ ہے۔
Published: undefined
جبکہ حویلی میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب کے کمرے میں غالب کا ایک سنگی مجسمہ اونچائی پر نصب ہے اور اس کی دونوں جانب بھی اسٹینڈوں پر دیوان غالب کے نسخے رکھے ہوئے ہیں۔ یہ حصہ چونکہ بڑا ہے اس لیے کسی شو کیس میں نہیں ہے بلکہ کھلا ہوا ہے۔ البتہ سامنے کی جانب ڈوری باندھ کر رکاوٹ کھڑی کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر اس رکاوٹ میں بھی کوئی سلیقہ نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مجسمہ شاعر، نغمہ نگار اور فلم ساز گلزار کا عطا کردہ ہے۔ یہاں غالب کا ایک چغہ بھی لٹک رہا ہے۔ برابر میں ایک بورڈ آویزاں ہے جس پر اردو، ہندی اور انگریزی میں حیات غالب کے چند شخصی پہلو تحریر ہیں۔ اس کے بالمقابل دیوار پر ایک بورڈ اور ایک بڑا سا شو کیس آویزاں ہیں۔ بورڈ پر غالب کی شریک حیات امراؤ بیگم کی اور خود ان کی تصویر ہے اور نیچے امراؤ بیگم کے بارے میں تفصیلات درج ہیں۔ جبکہ شو کیس میں ان کا لباس سجایا ہوا ہے۔ ان تفصیلات کو پڑھنے کا موقع نہیں ملا، کیا پتا ان میں بھی غلطیاں موجود ہوں۔
مجموعی طور پر یہاں کے حالات بد انتظامی اور بد ذوقی کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ غالب بڑے اعلیٰ ذوق کے حامل اور نفاست پسند انسان تھے اور عمومیت تو انھیں بہت ناگوار خاطر تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے ایسے وبائی عالم میں جبکہ لوگ مر رہے تھے، مرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن بہر حال یہی کیا کم ہے کہ بعض مداحانِ غالب کی کوششوں سے ان کی حویلی کی بازیافت ہوئی ورنہ کیا پتا کہ اب تک یہاں لکڑی اور کوئلے کی ٹال ہی ہوتی۔ اردو کے اس زوال آمادہ دور میں وہ لوگ بہر حال مبارکباد کے مستحق ہیں جنھوں نے فردوسیٔ ہند مرزا اسد اللہ خاں غالب کی حویلی کی بازیابی میں اہم رول ادا کیا۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ وہاں کے انتظامات بہتر ہوں۔ روشنی کا معقول انتظام کیا جائے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اشعار اور نام میں جو غلطیاں ہیں ان کی تصحیح کی جائے۔ کم از کم یہ کام تو ہر حال میں ہو جانا چاہیے۔
پس نوشت: ہم فلم ساز اور نغمہ نگار گلزار کے بہت قدردان ہیں کہ انھوں نے غالب پر ایک سیرئیل بنایا جس میں غالب کا رول نصیر الدین شاہ نے ادا کیا ہے۔ اسے 1988 میں دور درشن پر دکھایا گیا جو کہ بہت مقبول ہوا۔ اس کی تمام قسطیں یو ٹیوب پر موجود ہیں۔ نصیر الدین کی اداکاری لاجواب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں غالب کی روح حلول کر گئی ہے۔ کم از کم ہمیں جب بھی غالب کی یاد آتی ہے تو بھارت بھوشن کا نہیں بلکہ نصیر الدین شاہ کا رول یاد آجاتا ہے۔ حالانکہ 1954 میں سہراب مودی کی بنائی ہوئی فلم ’’مرزا غالب‘‘ میں بھارت بھوشن نے غالب کے کردار میں جو اداکاری کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انھوں نے فلم میں غالب کو زندہ کر دیا ہے۔ وہ فلم تو ہم نے پوری نہیں دیکھی ہے لیکن ٹی وی سیرئیل پورا دیکھا ہے۔ سیرئیل میں ایک مقام ایسا آتا ہے جب بڑی کوفت ہوتی ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ غالب اور ذوق میں چشمک چلتی تھی۔ ذوق باشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔ غالب جو کہ خود کو ذوق سے بڑا شاعر سمجھتے تھے، اس منصب پر فائز نہیں ہو سکے تھے۔ ذوق کے انتقال کے بعد انھیں یہ منصب ملا تھا۔ ایک بار ذوق کو آتا دیکھ کر غالب نے کہا تھا کہ ’’بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا‘‘۔ سیرئیل میں جب نصیر الدین شاہ اس مصرعے کو ادا کرتے ہیں تو ’’شہ‘‘ کو کھینچ کر ’’شاہ‘‘ کہتے ہیں۔ صرف یہیں نہیں بلکہ اس واقعہ کے بعد جب دربار میں مشاعرہ ہوتا ہے اور ذوق کا ایک شاگرد بادشاہ سے مرزا کی شکایت کرتا ہے تو وہ بھی ’’شاہ‘‘ کہتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ جب بادشاہ سلامت مرزا سے یعنی نصیر الدین شاہ سے دریافت کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ میری تازہ غزل کے مطلعے کا مصرعہ اولیٰ ہے۔ جب ان سے غزل سنانے کی فرمائش کی جاتی ہے تو اس وقت بھی وہ لفظ شہ کو کھینچ کر ’’شاہ‘‘ کہتے ہیں اور پڑھتے ہیں کہ ’’بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا‘‘۔ شہ کو بار بار شاہ پڑھنا سماعتوں پر اتنا گراں گزرتا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ کانوں میں انگلی ٹھونس لی جائے۔ حیرت ہے کہ گلزار جیسے اہل زبان نے اس کی تصحیح نہیں کی اور اس بدذوقی کو گوارہ کر لیا۔ نصیر الدین شاہ کو بھی اس تلفظ میں کوئی خامی نظر نہیں آئی۔ ان دونوں کو کم از کم یہی سوچنا چاہیے تھا کہ اس سے غالب کی روح کو کتنی تکلیف پہنچ رہی ہوگی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز