نئی دہلی : اردو کی لو جلائے رکھنے والا جشن ، جشن ریختہ کے چوتھے ایڈیشن کا افتتاح کچھ روشنی کے مسائل سے دو چار رہا۔ افتتاح میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر ہوئی اور پھر بعد میں ایک مرتبہ پھر پروگرام کے دوران بجلی جانے کی پریشانی پیش آئی ۔
اردو کا ہر دل عزیز جشن ریختہ دہلی کے انڈیا گیٹ کے قریب واقع نیشنل اسٹیڈئم میں شروع ہوا جس کا افتتاح اپنے زمانے کی معروف اداکارہ وحیدہ رحمان اور پنڈت جسراج نے کیا ۔ درحقیقت اس جشن میں اردو سے محبت کرنے والوں کے لئے ہر چیز موجود ہے ۔ یہاں قوالی ، کتابیں ، مباحثہ ، غزلیں اور فلم سبھی کچھ موجود ہے ۔ اردو کے چاہنے والے اردو کے وہ نام جو خود ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں سب یہاں موجود نظر آئے ۔
اردو کو سنگیت، شاعری اور پیار محبت کی زبان قرار دیتےہوئے کلاسیکی آئیکن پنڈت جسراج نے آج یہاں ’’جشن ریختہ‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے اپنی بات حیدار آباد میں اردو سے پہچان کے ساتھ شروع کی اور وحیدہ رحمان سے اپنی پہلی ملاقات کی خوشی کا اظہار ان کے ہی فلمی نغمے کے اس بول کے ساتھ کیا کہ’ آج پھر جینے کی تمنا ہے‘۔
وحیدہ رحما ن نے اردو کو عشق کی زبان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُس عاشق کو سخت کوفت ہوتی ہے جو اظہار عشق اردو میں نہیں کر سکتا۔ اردو کو کرناٹک اور جاپان میں خود سے قریب پانے کی خوشی سامعین سے شئیر کرتے ہوئے انہوں نے لوگوں کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ جاپان میں جس اردو کے پروفیسر سے مل کر وہ خوش ہوئیں، اس پروفیسر نے ان کی خوشی یہ بتا کر دوبالا کر دی کہ ان کے شاگرد جاپانی ہوتے ہیں غیر جا پانی نہیں۔
وحیدہ رحمان نے اپنے عہد کے ان مشاعروں کو بھی یاد کیا جن میں ساحر ، فیض ، سردار جعفری ، مجروح اور دوسرے شعرا شرکت کیا کرتے تھے۔ بالی ووڈ میں دیوانند، منوج کمار اور دھرمندر کی زبان اردو ہونے کے ذکر کے ساتھ انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے بعد مذہب کے حوالے سے اردو کے تعلق سے پیدا ہونے والی غلط فہمی کے بعد کاآج کا یہ عہداردو کے حق میں امید افزا ہے اور جشن ریختہ کی شکل میں میری نظر کے سامنے ہے۔
اس طرح آج اردو زبان، تہذیب اور اس کی وراثت کا جشن منانے کی نئی روایت کے چوتھے سلسلے کا آغاز عمل میں آگیا۔یہ کثیر جہتی سہہ روزہ تقریب مشاعرے، قوالی، داستان گوئی، غزل، ڈانس، کتابوں کی نمائش ، فلم اسکریننگ، پینل ڈسکشن، خطاطی ورکشاپ کا احاطہ کرے گی اور ایک سے زیادہ اقسام کے کھانوں کی لذت کے ساتھ دیگر تفریح کا ڈھیروں سامان فراہم کرے گی۔
جشن کے ذمہ دران کے مطابق زائد از 75 مصنفین، شعرا، فنکار،ادباء، گلوکار اور نمایاں شخصیات اس تقریب کو اپنی موجودگی سے اعتبار بخشیں گی۔
Published: 08 Dec 2017, 11:15 PM IST
اردو زبان و تہذیب کے اس جشن کو یادگار بنانے میں اپنے وقت کی مقبول اداکارہ وحیدہ رحمان، جاوید اختر، شبانہ اعظمی، نوازالدین صدیقی، نندیتا داس، امتیاز علی ، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمان فاروقی، امیش ترپاٹھی، عامر رضا حسین، شبھ مدگل، انو کپور، نیلیش مشرا، ورون گروور ارو تانیہ ویلس(برازیل) کے علاوہ اور بھی کئی شعبہ جاتی شخصیات حصہ لے رہی ہیں۔
رواں سال میں دوسری مرتبہ منعقد یہ تقریب ایک سے زیادہ پروگراموں کے ناظرین اور سامعین کو ادبی شخصیات سے ارتباط اور ایک سے زیادہ کھلی مجالس میں اظہار خیال کا بھی موقع فراہم کرے گی۔
اس موقع پر لذیز سے لذیز تر اودھی، مغلائی، حیدرآبادی، افغانی، رامپوری، بہاری، کشمیری اور عام جگہوں پر دستیاب شوق سے کھائے جانے والے کھانوں کا بھی خاصا نظم کیا گیا ہے۔
واضح رہے جشن ریختہ جو دہلی کے ادبی کیلنڈر کا اہم حصہ بن چکا ہے اور اس کے منتظم سنجیو صراف اردو کو قائم و دائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
اردو پڑھنے والوں کی گھٹتی تعداد پر فکرمند گلزار نے کہا کہ اردو کو وقت کے ساتھ بدلنا ہوگا لیکن فوری ضرورت اردو رسم الخط کو مقبول بنانے کی ہے کیونکہ ہندوستان میں نوجوان نسل اب اردو پڑھنا نہیں جانتی۔’’اردو زبان بدلے گی نہیں تو مر جائے گی، زبان کا بدلنا ضروری ہے، اگر کوئی بھی زبان وقت کے ساتھ نہیں بدلے گی تو کلاسک بتا کر طاق میں رکھ دی جائے گی۔‘ حقیقت تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے اس دور میں ہر زبان کے لئے دشواریاں ہے ۔ جشن میں ہر سال شریک ہونے والی فرزانہ ہارون کا کہنا ہے کہ اردو کے فروغ میں جشن ریختہ ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔کویت سے آئیں ٹیچر یاسمین شمشاد، لندن کی نائلہ شمشاد ، رضوان شمشاد اور ثنا حق جشن ریختہ میں گزشتہ دو سال سے آ رہی ہیں اور ان کے لئے اس میں شرکت ایک فخر کی بات ہے ۔
قومی آواز/یو این آئی
Published: 08 Dec 2017, 11:15 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 Dec 2017, 11:15 PM IST