آج عالمی شہرت یافتہ شاعر فراق گورکھپوری کا یومِ وفات ہے۔ 28 اگست 1896 کو گورکھپور میں پیدا ہوئے فراق کا اصل نام رگھوپتی سہائے تھا اور وہ کایستھ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ 3 مارچ 1982 کو انھوں نے آخری سانس لی لیکن اپنی تخلیقات کے ذریعہ وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہ گئے۔ فراق گورکھپوری اپنے عہد کے ممتاز ناقد تھے، حالانکہ انہیں شاعری میں تنقید کے مقابلے کہیں زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ خاص طور سے غزلوں میں ان کی انفرادیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ یہاں پیش ہیں ان کی 3 اہم غزلیں جو ان کی شعری صلاحیت کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔
Published: undefined
تمہیں کیوں کر بتائیں زندگی کو کیا سمجھتے ہیں
سمجھ لو سانس لینا خودکشی کرنا سمجھتے ہیں
کسی بدمست کو راز آشنا سب کا سمجھتے ہیں
نگاہ یار تجھ کو کیا بتائیں کیا سمجھتے ہیں
بس اتنے پر ہمیں سب لوگ دیوانہ سمجھتے ہیں
کہ اس دنیا کو ہم اک دوسری دنیا سمجھتے ہیں
کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے
ترے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں
امیدوں میں بھی ان کی ایک شان بے نیازی ہے
ہر آسانی کو جو دشوار ہو جانا سمجھتے ہیں
یہی ضد ہے تو خیر آنکھیں اٹھاتے ہیں ہم اس جانب
مگر اے دل ہم اس میں جان کا کھٹکا سمجھتے ہیں
کہیں ہوں تیرے دیوانے ٹھہر جائیں تو زنداں ہے
جدھر کو منہ اٹھا کر چل پڑے صحرا سمجھتے ہیں
جہاں کی فطرت بیگانہ میں جو کیف غم بھر دیں
وہی جینا سمجھتے ہیں وہی مرنا سمجھتے ہیں
ہمارا ذکر کیا ہم کو تو ہوش آیا محبت میں
مگر ہم قیس کا دیوانہ ہو جانا سمجھتے ہیں
نہ شوخی شوخ ہے اتنی نہ پرکار اتنی پرکاری
نہ جانے لوگ تیری سادگی کو کیا سمجھتے ہیں
بھلا دیں ایک مدت کی جفائیں اس نے یہ کہہ کر
تجھے اپنا سمجھتے تھے تجھے اپنا سمجھتے ہیں
یہ کہہ کر آبلہ پا روندتے جاتے ہیں کانٹوں کو
جسے تلووں میں کر لیں جذب اسے صحرا سمجھتے ہیں
یہ ہستی نیستی سب موج خیزی ہے محبت کی
نہ ہم قطرہ سمجھتے ہیں نہ ہم دریا سمجھتے ہیں
فراقؔ اس گردش ایام سے کب کام نکلا ہے
سحر ہونے کو بھی ہم رات کٹ جانا سمجھتے ہیں
Published: undefined
ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں
شب فرقت بہت گھبرا رہا ہوں
ترے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہوں
جہاں کو بھی سمجھتا جا رہا ہوں
یقیں یہ ہے حقیقت کھل رہی ہے
گماں یہ ہے کہ دھوکے کھا رہا ہوں
اگر ممکن ہو لے لے اپنی آہٹ
خبر دو حسن کو میں آ رہا ہوں
حدیں حسن و محبت کی ملا کر
قیامت پر قیامت ڈھا رہا ہوں
خبر ہے تجھ کو اے ضبط محبت
ترے ہاتھوں میں لٹتا جا رہا ہوں
اثر بھی لے رہا ہوں تیری چپ کا
تجھے قائل بھی کرتا جا رہا ہوں
بھرم تیرے ستم کا کھل چکا ہے
میں تجھ سے آج کیوں شرما رہا ہوں
انہیں میں راز ہیں گلباریوں کے
میں جو چنگاریاں برسا رہا ہوں
جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں
ترے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس
کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں
حد جور و کرم سے بڑھ چلا حسن
نگاہ یار کو یاد آ رہا ہوں
جو الجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں
وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں
محبت اب محبت ہو چلی ہے
تجھے کچھ بھولتا سا جا رہا ہوں
اجل بھی جن کو سن کر جھومتی ہے
وہ نغمے زندگی کے گا رہا ہوں
یہ سناٹا ہے میرے پاؤں کی چاپ
فراقؔ اپنی کچھ آہٹ پا رہا ہوں
Published: undefined
کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اس نگاہ آشنا کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
رفتہ رفتہ غیر اپنی ہی نظر میں ہو گئے
واہ ری غفلت تجھے اپنا سمجھ بیٹھے تھے ہم
ہوش کی توفیق بھی کب اہل دل کو ہو سکی
عشق میں اپنے کو دیوانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
پردۂ آزردگی میں تھی وہ جان التفات
جس ادا کو رنجش بے جا سمجھ بیٹھے تھے ہم
کیا کہیں الفت میں راز بے حسی کیوں کر کھلا
ہر نظر کو تیری درد افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم
بے نیازی کو تری پایا سراسر سوز و درد
تجھ کو اک دنیا سے بیگانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
انقلاب پے بہ پے ہر گردش و ہر دور میں
اس زمین و آسماں کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
بھول بیٹھی وہ نگاہ ناز عہد دوستی
اس کو بھی اپنی طبیعت کا سمجھ بیٹھے تھے ہم
صاف الگ ہم کو جنون عاشقی نے کر دیا
خود کو تیرے درد کا پردا سمجھ بیٹھے تھے ہم
کان بجتے ہیں محبت کے سکوت ناز کو
داستاں کا ختم ہو جانا سمجھ بیٹھے تھے ہم
باتوں باتوں میں پیام مرگ بھی آ ہی گیا
ان نگاہوں کو حیات افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اب نہیں تاب سپاس حسن اس دل کو جسے
بے قرار شکوۂ بیجا سمجھ بیٹھے تھے ہم
ایک دنیا درد کی تصویر نکلی عشق کو
کوہکن اور قیس کا قصہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
رفتہ رفتہ عشق مانوس جہاں ہوتا چلا
خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم
حسن کو اک حسن ہی سمجھے نہیں اور اے فراقؔ
مہرباں نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined