اپنے ہم عصر شعرا میں سنجیدہ ترین شاعر تصور کیے جانے والے افتخار عارف کا آج یومِ پیدائش ہے۔ انھوں نے 21 مارچ 1943 کو لکھنؤ کی فضا میں آنکھ کھولی۔ تقسیم ملک کے بعد پاکستان کے شہر کراچی منتقل ہو جانے والے افتخار عارف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جو کچھ محسوس کرتے ہیں اس کو شعری پیرایہ میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ ’قومی آواز‘ کے قارئین کے لیے ہم یہاں ان کی ایک معروف نظم ’بارہواں کھلاڑی‘ اور ایک غزل پیش کر رہے ہیں جس کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا شعور کتنا بلند تھا اور وہ کس قدر اعلیٰ شعری صلاحیت کے مالک تھے۔
خوش گوار موسم میں
ان گنت تماشائی
اپنی اپنی ٹیموں کو
داد دینے آتے ہیں
اپنے اپنے پیاروں کا
حوصلہ بڑھاتے ہیں
میں الگ تھلگ سب سے
بارہویں کھلاڑی کو
ہوٹ کرتا رہتا ہوں
بارہواں کھلاڑی بھی
کیا عجب کھلاڑی ہے
کھیل ہوتا رہتا ہے
شور مچتا رہتا ہے
داد پڑتی رہتی ہے
اور وہ الگ سب سے
انتظار کرتا ہے
ایک ایسی ساعت کا
ایک ایسے لمحے کا
جس میں سانحہ ہو جائے
پھر وہ کھیلنے نکلے
تالیوں کے جھرمٹ میں
ایک جملۂ خوش کن
ایک نعرۂ تحسین
اس کے نام پر ہو جائے
سب کھلاڑیوں کے ساتھ
وہ بھی معتبر ہو جائے
پر یہ کم ہی ہوتا ہے
پھر بھی لوگ کہتے ہیں
کھیل سے کھلاڑی کا
عمر بھر کا رشتہ ہے
عمر بھر کا یہ رشتہ
چھوٹ بھی تو سکتا ہے
آخری وصل کے ساتھ
ڈوب جانے والا دل
ٹوٹ بھی تو سکتا ہے
تم بھی افتخار عارف
بارہویں کھلاڑی ہو
انتظار کرتے ہو
ایک ایسے لمحے کا
ایک ایسی ساعت کا
جس میں حادثہ ہو جائے
جس میں سانحہ ہو جائے
تم بھی افتخار عارف
تم بھی ڈوب جاؤ گے
تم بھی ٹوٹ جاؤ گے
--
کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا
جہان رزق میں توقیر اہل حاجت کیا
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
دمشق مصلحت و کوفۂ نفاق کے بیچ
فغان قافلۂ بے نوا کی قیمت کیا
مآل عزت سادات عشق دیکھ کے ہم
بدل گئے تو بدلنے پہ اتنی حیرت کیا
قمار خانۂ ہستی میں ایک بازی پر
تمام عمر لگا دی تو پھر شکایت کیا
فروغ صنعت قد آوری کا موسم ہے
سبک ہوئے پہ بھی نکلا ہے قد و قامت کیا
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز