وسیم ؔبریلوی کی شاعری ’کوٹیبلٹی‘ کی دولت سے مالا مال ہے۔ شعر میں حوالہ بننے کی صلاحیت ہے تو وہ ’کوٹ‘ تو ہوگا۔ حال ہی میں پڑوسی ملک میں جو سیاسی بحران پیش آیا تو ان کے شعروں کا سہارا لیا جا رہا تھا، جو وہاں کے سیاسی پس منظر کو واضح کر رہے تھے۔
تم گرانے میں لگے تھے، تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا
مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر
راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا
ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہدِ وفا
اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا
Published: undefined
سوشل میڈیا پر دوبئی کے مشاعرہ میں پڑھے گئے ان اشعار کا کلپ خوب وائرل ہوا، جو معزول وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوا کی چپقلش اور اس سیاسی جنگ کے عواقب و مضمرات کی عکاسی کر رہا ہے۔ مہاراشٹر میں جب شیو سینا سے وشواس گھات کر کے بی جے پی علیحدہ ہوئی تو شیو سینا کے ترجمان اپنی جماعت کا احساس ظاہر کرنے کے واسطے وسیمؔ بریلوی کا یہ شعر پڑھتے ہیں:
وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
عوام کی توقع کے خلاف کورٹ کا ایک فیصلہ آتا ہے تو یہ شعر متاثرین کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے:
فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف
آپ کیا خاک عدالت میں گواہی دیں گے
ابھی حال ہی میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے جسٹس کے وی وشوناتھن کی سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر تقرری کا خیر مقدم کیا تو ان کی خوبی بیان کرتے ہوئے، انھوں نے وسیمؔ بریلوی کا یہ شعر پڑھا:
تم آ گئے ہو تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے
Published: undefined
وسیمؔ بریلوی کے متعدد اشعار ’ضرب المثلیت‘ کی صلاحیت سے انگیز ہیں۔ جو موقع بموقع پڑھے جاتے ہیں، حوالے میں آتے ہیں، مثال بنائے جاتے ہیں:
اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ
کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ
میں قطرہ ہوکے بھی طوفاں سے جنگ لیتا ہوں
مجھے بچانا سمندر کی ذمہ داری ہے
دعاکرو کہ سلامت رہے مری ہمّت
یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے
Published: undefined
ذرا سی خاک ہو اس بات پر نہیں جانا
ہزار آندھیاں آئیں بکھر نہیں جانا
یہ کس کا ہاتھ ہے پھر کاٹ کیوں نہیں دیتے
جو سارے شہر کی شمعیں بجھائے دیتا ہے
چراغ گھرکا ہو محفل کا ہو کہ مندر کا
ہوا کے پاس کوئی مصلحت نہیں ہوتی
جلا کے رکھ لیا ہاتھوں کے ساتھ دامن تک
تمھیں چراغ بجھانا بھی تو نہیں آیا
کتاب ماضی کے اوراق الٹ کے دیکھ ذرا
نہ جانے کون سا صفحہ مڑا ہوا نکلے
Published: undefined
اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے
گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے
پہلے یہ طے ہو کہ اس گھرکو بچائیں کیسے
ہمیں نے کر دیا اعلان گمرہی ورنہ
ہمارے پیچھے بہت لوگ آنے والے تھے
جو سب پہ بوجھ تھا اک شام جب نہیں لوٹا
اسی پرندے کا شاخوں کو انتظار رہا
Published: undefined
چلو ہم ہی پہل کر دیں کہ ہم سے بدگماں کیوں ہو
کوئی رشتہ ذرا سی ضد کی خاطر رائیگاں کیوں ہو
اک ذرا سی انا کے لئے عمر بھر
تم بھی تنہا رہے ہم بھی تنہا رہے
شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ
کیجے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ
میں نے مدت سے کوئی خواب نہیں دیکھا ہے
ہاتھ رکھ دے مری آنکھوں پہ کہ نیند آ جائے
کبھی لفظوں سے غداری نہ کرنا
غزل پڑھنا اداکاری نہ کرنا
Published: undefined
ان کے ایسے بہت سے ضرب المثل اشعار ہیں جن سے الفاظ و معانی کے مختلف رنگ پھوٹتے ہیں اور جنھیں سن کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کوچۂ سخن کی فضا تبدیل ہو ئی ہے۔ وسیمؔ بریلوی کے اشعار زمانے کی اذیتوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ان کے شعروں میں شورانگیز خاموشی اور سکوت بھرا شور ہے۔ ان کے خیال انگیز کلام سے جمال آفرینی کبھی جد انہیں ہوتی۔
یہی کیفیت ان کے گیتوں کی ہے۔ جنھیں پڑھ کر ہم گھر آنگن کی تہذیب، مناظر فطرت کی دھوپ، چھاؤں، چاندنی اور ہریالی اور بے نام جذبوں کی زبان سیکھ سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined