سال 1934 میں ' دی ہریجن' کی یاترا کے ایک حصے کے طور پر گاندھی جی کرناٹک، تمل دیہی علاقوں، اڑیسہ، بنگال، آسام اور پھر بہار، پنجاب، مغربی ہندوستان سے ہوتے ہوئے مغرب کی طرف گئے۔ بنگلور میں ایک جلسہ عام کے دوران ہنگری کی پینٹر الزبتھ برنر اور ان کی بیٹی نے گاندھی جی سے ملاقات کی۔ وہ ان کی تصویر بنانے کی درخواست کرتی ہیں۔ گاندھی جی نے پوچھا ’’تم میرے جیسے بدصورت آدمی کی تصویر کیوں بنانا چاہتی ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’میں اپنے قلم سے آپ کی روح کو نمایاں کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ گاندھی نے کہا ’’ایسا کرنے کے لیے آپ کے پاس صرف آدھا گھنٹہ ہے!‘‘
اسی طرح 1934 میں بنگلور میں ہی جلسہ عام کے دوران ایک اٹھارہ سالہ لڑکی میرے پاس آٹو گراف لینے آئی۔ جیسے ہی میں نے اپنا قلم اٹھایا، اس نے ایک اور درخواست کی ’’براہ کرم میرے لیے ایک نصیحت بھی تحریر کر دیں، میں نے مسکراتے ہوئے لکھا ’’کسی بھی قیمت پر سچ۔‘‘ وہ بہت خوش ہوئی اور اپنا سر میرے قدموں میں رکھ دیا۔
Published: undefined
6 جنوری کو سومن ہلی میں:
لڑکا: مجھے آپ کا آٹوگراف چاہیے!
میں: اس کے لیے کیا دو گے؟ مجھے معاوضہ چاہئے۔
لڑکا: ایک روپیہ۔
میں (اس کی بالیاں دیکھ کر اور چھو کر) یہ کیا ہیں؟
لڑکا: آپ انہیں لے سکتے ہیں۔
میں: کیا اس کے لیے آپ کے والد سے اجازت ہے؟
لڑکا: ہاں اگر میں یہ آپ کو دے دوں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
میں: تمہیں اتنی آزادی ہے! (اور پھر بالیاں لیتے ہوئے) تمہیں یہ نہیں چاہئیں۔ اب اس کے بعد بالیاں مت پہننا، اپنے والدین سے نئی لانے کے لیے مت کہنا۔
(اسے آٹوگراف دیتے ہوئے) تمہارا نام کیا ہے؟
لڑکا: بی وی تھمپا۔
میں: آپ کی عمر کتنی ہے؟
لڑکا: تیرہ
میں: تو تمہیں تیرہ سال کی عمر میں آزادی ہے۔ مجھے نہیں تھی۔
Published: undefined
ہم 13 جنوری کو مالابار کے بڈگارا میں تھے۔ اس سے زیادہ دل کو چھو لینے والا کوئی اور منظر میری یادداشت میں نہیں ہے۔ ابھی تقریر مکمل کی تھی۔ اس میں میں نے وہاں موجود خواتین سے ان کے زیورات کے بارے میں ایک منطقی درخواست کی تھی۔ تقریر ختم کرنے کے بعد ملنے والے تحائف کا اعلان کر رہا تھا کہ ایک سولہ سالہ لڑکی کومودی آہستہ آہستہ اسٹیج پر آئی۔ انہوں نے اپنی ایک چوڑی نکالی اور مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ایک چوڑی کے بدلے آٹوگراف دوں گا؟ میں ابھی اسے دینے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے ایک اور چوڑی نکال لی۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک چوڑی تھی۔ میں نے کہا ’’مجھے دونوں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہیں صرف ایک چوڑی کے بدلے آٹوگراف دوں گا۔‘‘ جواب میں اس نے اپنا سونے کا ہار بھی اتار دیا۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی۔ اسے اس کے بالوں کی لمبی چوٹی سے ہٹانا پڑا۔ میں نے پوچھا، ’’لیکن کیا اس کے لیے تمہارے والدین کی اجازت ہے؟‘‘ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کا اپنا کام ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ خود بخود اس کے کانوں تک چلے گئے اور اس کے جواہرات سے جڑی بالیاں اس کے ہاتھ میں تھیں۔ عوام پرجوش نعرے لگا رہے تھے، خوشی کے اظہار کو بھلا کون روک سکتا تھا۔ میں نے اس سے پھر پوچھا کہ کیا اس کے والدین کی اجازت ہے؟ اس سے پہلے کہ میں شرمیلی لڑکی سے کوئی جواب سنتا، کسی نے مجھے بتایا کہ اس کے والد اس جلسہ میں موجود ہیں۔ وہ خود اعلان کرنے میں میری مدد کر رہے تھے اور وہ اپنی بیٹی کی مثبت حرکت کی تعریف بھی کر رہے تھے۔ اسے آٹوگراف دیتے ہوئے میں اپنے آپ کو یہ کہنے سے نہ روک سکا ’’آپ کی قربانی آپ کے دیے گئے زیور سے زیادہ سچا زیور ہے۔‘‘
Published: undefined
ایک دن میں فرانسیسی ہندوستان کے ایک علاقہ ماہے میں رہا، جہاں مجھے منفرد لطف حاصل ہوا۔ اگرچہ مجھے کئی بار بنگال کے چندر ناگور جانے کا شرف حاصل ہوا لیکن فرانسیسی ہندوستان میں ملک کے اس حصے کا یہ میرا پہلا دورہ تھا لیکن پولیس کی وردی اور فرانسیسی زبان کے حوالے سے میں نے جو کچھ بھی دیکھا اور پڑھا، مجھے کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ اس جگہ پر ہریجنوں کے لیے ایک اہم مندر کھول دیا گیا تھا اور میں نے اس بے ساختہ مذہبی فریضے کو انجام دینے کے لیے ٹرسٹیوں کو مبارکباد دی۔ مجھے ایک پرس اور ہندی خط بطور تحفہ حاصل ہوا۔
جب 15 جنوری 1934 کو بہار میں زلزلہ آیا تو اس وقت میں کالی کٹ میں تھا۔ دیوداس اور لکشمی، جو 2 جنوری کو رہا ہوئے تھے، آئے اور مجھ سے ملے۔ لکشمی کی ڈیلیوری دہلی میں ہونی تھی۔
شام 6 بجے کالی کٹ کے ساحل سمندر پر منعقدہ ایک جلسہ عام میں، جس میں 15000 لوگوں نے شرکت کی، میں نے اپنے کلپٹہ کے دورے کے بارے میں بات کی اور کہا، ’’آج صبح وہ لوگ مجھے مالابار کے سب سے خوبصورت حصے میں لے گئے۔ وہ مجھے انتہائی رومانوی نظاروں والے پہاڑیوں پر لے گئے اور مجھے ایک بھجن یاد آیا۔ میرے خیال میں اسے بشپ ہیبر نے ترتیب دیا تھا۔ اب چاہے انہوں نے ترتیب دی ہو یا کسی اور بشپ نے، یہ وہ سطر ہیں جو میں آپ کو سنانے کے لیے اس بھجن سے لیتا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ ہندوستان کے اس مغربی ساحل کی طرف آ رہے تھے تو لاشعوری طور پر یہ سطر ان کے ہونٹوں یا قلم پر آگئی ’جہاں ہر امکان خوشنما ہوتا ہے، تنہا آدمی بدبخت ہوتا ہے۔‘ شاعر اپنی تخلیق کے پنجروں میں کبھی قید نہیں ہو سکتے۔ شاعر ہمیشہ لکھتے رہتے ہیں۔ ان کی باتوں میں ایسی معنویت ہے کہ انہیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کب بولتے ہیں یا لکھتے ہیں۔ مالابار میں، خوشبودار ہوائیں اس ہریالی سے آتی ہیں جو قدرت نے انسانوں کے لیے بنائی ہے لیکن چھوا چھوت کے اپنے فعل کے ذریعے اس نے فطرت کی خلاف ورزی کی ہے اور اس طرح وہ گھناؤنے کام کرنے والا بدبخت بن گیا ہے۔
Published: undefined
16 تاریخ کو میں نے کوچین کے زمورین کے ساتھ چھوا چھوت اور مندر میں داخلے پر بات کی۔ شاستریوں سے ملاقات بھی طے تھی لیکن پھر ان کی طرف سے پیغام آیا کہ وہ بات چیت پر اسی صورت میں راضی ہوں گے جب میں ان کے ساتھ کئی دن رہوں اور سنسکرت میں ہی بات کروں! اس لیے یہ ملاقات نہ ہو سکی۔
میں 17 جنوری کو الوے میں تھا۔ میں نے وہاں کہا تھا کہ میرا پیغام صرف یہ ہے کہ جو اونچی ذات کے ہندو اپنے آپ کو ان سے برتر سمجھتے رہے ہیں جنہیں اچھوت، ناقابل رسائی، پوشیدہ ہندو کہتے ہیں، تو انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ برتری کے اس گھمنڈ کی صحیفوں میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ کسی قسم کی کوئی روایت نہیں۔ اگر مجھے پتہ چلا کہ وہ صحیفے جو وید، اپنشد، بھگوت گیتا، اسمرتی وغیرہ کے نام سے مشہور ہیں، صاف ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے خدائی اختیار کا دعویٰ کیا ہے، تو زمین کی کوئی طاقت مجھے ہندو مت سے نہیں باندھ سکے گی۔ مجھے اسے اسی طرح پانی میں پھینک دینان چاہئے، جس طرح کوئی سڑا ہوا سیب پھینک دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
24 جنوری کو ترونیل ویلی کے میونسپل مارکیٹ میں 20000 لوگوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میں نے پہلی بار بہار کے زلزلے کا ذکر کیا، جس کی شدت کی اطلاعات مجھ تک پہنچی تھیں۔ میں نے اسے ہمارے گناہوں کے لیے خُدا کی الہٰی تادیبی سزا کہا۔ اسی دن توتیکورن میں میں نے پھر کہا کہ زلزلہ اس عظیم گناہ کا عذاب الہی تھا جو ہم نے کیا ہے اور اب بھی ان لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں جنہیں اچھوت یا پنچما کہا جاتا ہے اور جنہیں میں ہریجن کہتا ہوں۔ 30 جنوری سے 5 فروری تک، میں نیل گری کے کنور میں تھا۔ جس دن میں کنور پہنچا، میں نے با (کستوربا) کو لکھا جو ابھی تک سابرمتی جیل میں تھیں، میں نے لکھا ’’بہار میں زلزلے کے نتیجے میں 20000 سے 25000 لوگ مر چکے ہیں۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ان باتوں کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا کہ صدیوں پرانے گناہوں کی سزا کیوں' یا 'بہار کو سزا کیوں، جنوب کو کیوں نہیں؟۔‘ میرا جواب تھا، ’’میں خدا نہیں ہوں۔‘‘ 2 فروری کو مجھے گرودیو کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ ہمارے درمیان بنیادی اختلاف تھا۔ میں نے اسے لکھا کہ مجھے یقین ہے کہ ماورائے طبعی نتائج جسمانی مظاہر کے نتیجے میں ہوتے ہیں۔ یہ کیسے ہوتا ہے، مجھے نہیں معلوم۔
Published: undefined
دسمبر کے وسط میں میری چیسلی وردھا آئی۔
اس نے مجھ سے کچھ سوالات پوچھے۔
چیسلی: کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ لاشعوری منطق یا خدا سے رہنمائی حاصل کر رہے ہیں؟
میں: خدا کی طرف سے - لیکن لاشعوری منطق ایک الہی آواز ہو سکتی ہے!
چیسلی: جب آپ کو دو (اچھی) چیزوں کے درمیان انتخاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو آپ کو کیسے معلوم ہوگا کہ آپ کے لیے خدا کا نقطہ نظر کیا ہے؟
میں: میں اس موضوع پر اپنی صوابدید استعمال کرتا ہوں اور اگر مجھے اس بات کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ملتی کہ مجھے دونوں میں سے کس کا انتخاب کرنا چاہیے تو میں اسے چھوڑ دیتا ہوں، اور پھر جلد ہی ایک صبح میں پورے اعتماد کے ساتھ بیدار ہوتا ہوں کہ یہ بی کے بجائے اے ہونا چاہیے۔
چیسلی: کیا آپ کو کوئی صوفیانہ تجربہ ہوا ہے؟
میں: اگر صوفیانہ تجربات سے آپ کا مطلب خواب ہے، تو نہیں۔ اگر میں نے ایسا دعویٰ کیا تو میں صرف دھوکہ باز ہی ہو سکتا ہوں۔ لیکن مجھے اس آواز پر پورا بھروسہ ہے جو میری رہنمائی کرتی ہے۔
نئی کتاب:
آئی ایم این آرڈینری میں: انڈیاز اسٹرگل فار فریڈ (1914-48)
ایڈیٹر: گوپال کرشن گاندھی
ناشر: الف
قیمت: 999 روپے (ہارڈ کوور)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined