ادبی

اردو زبان کی تاریخ اور ٹام آلٹر

اردو زبان کی تاریخ اور ٹام آلٹر

Getty Images
Getty Images 

اب یہ بھی کوئی عنوان ہوا؟ اور خاص طور پر کسی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے لکھے جانے والے مضمون کو کون اس قماش کا عنوان دیتا ہے؟

اعتراض بیجا نہیں مگر کیا کروں میرے ذہن میں ٹام آلٹر اور اردو کے ارتقا کی تاریخ کچھ اس طرح سے ایک دوسرے میں پیوست ہے کہ اور کوئی عنوان مجھے مناسب نہیں لگتا۔ شاید بہتر یہ ہوگا کہ میں ٹام سے ہونے والی اپنی پہلی ملاقات کا ذکر اس ملاقات کے پس منظر کے ساتھ بیان کر دوں، اس امید کے ساتھ کہ تب شاید آپ بھی مجھ سے متفق ہو جائیں۔

ہم اردو کی تاریخ پر ایک دستاویزی فلم بنا رہے تھے۔ فلم کا مرکزی تصور میرا تھا۔ فلم کے لیے ریسرچ بھی میں نے کی تھی اور اس کی اسکرپٹ بھی میں نے لکھی تھی۔ مشہور ہدایت کار سبھاش کپور نے اس فلم کو ڈائریکٹ کیا اور وزارتِ خارجہ کے لیے کامنا پرساد نے اس فلم کو پروڈیوس کیا۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں فلم کی شوٹنگ ہو چکی تھی اور اب ہمیں فلم کے لیے ایک راوی کی ضرورت تھی جو اس تاریخی، سماجی اور ثقافتی پس منظر کو ناظرین کے سامنے پیش کر سکے جس میں ہندوی نے آنکھیں کھولیں، صوفی خانقاہوں، بازاروں، مسافر خانوں اور فوجی چھاونیوں میں ہوش سنبھالا، گجرات اور دکن میں جوان ہوئی اور کس طرح دہلی اور لکھنو میں شعر و ادب، صحافت، ترسیل علم اور تصور آزادی کے اظہار کا ذریعہ بنی۔

فاروق شیخ کو فلم کی اسکرپٹ بھیجی، وہ بخوشی تیار ہو گئے۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ وہ اگلے چند مہینے مصروف تھے اور ہمیں دو مہینے مین فلم پوری کر کے داخل دفتر کرنی تھی۔ ہم نے نصیرالدین شاہ سے رجوع کیا۔ انھیں بھی اسکرپٹ بہت پسند آئی۔ مگر وہ بھی اگلے چند مہینے بہت مصروف تھے۔ اگلی چند سطور میں یہ آپ پر عیاں ہو جائے گا کہ اتنی لمبی تمہید کیوں باندھی جا رہی ہے۔

فاروق شیخ ان دنوں ’جینا اسی کا نام ہے‘ کے عنوان سے ایک پروگرام ٹیلی ویژن پر پیش کیا کرتے تھے۔نصیر سے ملاقات کے ایک دو دن بعد ہی اتفاقاً وہ ایپی سوڈ دکھایا گیا جس میں وہ نصیر سے گفتگو کرتے ہیں، بات چیت کے دوران ایف ٹی آئی آئی پونے کا ذکر آیا جہاںنصیر، فاروق، ٹام آلٹر اور بہت سے دوسرے فنکار ایک وقت میں ہوا کرتے تھے۔ ٹام کو اس ایپی سوڈ میں آنا تھا مگر وہ نہیں آ پائے اور اس لیے انھوں نے نصیر کے لیے ویڈیو پر ایک پیغام بھیجا۔ میں نے اس ریکارڈنگ میں پہلی بار ٹام کو اردو بولتے ہوئے سنا۔ کیا حسین انداز بیان، کتنی صاف اور شستہ زبان، کیا تلفظ، واہ اس دن سے پہلے انھیں فلموں میں صرف انگریز افسروں کے کردار میں ہی دیکھا تھا اور یہ بات ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ ٹام اتنی روانگی سے اتنی مصفی اردو بولتے ہیں، گویا وہ ان کی مادری زبان ہو۔

اب اسے ہی تو اتفاق کہتے ہیں۔ جن دو لوگوں کے پاس ہم اسکرپٹ لے کر گئے تھے ان کے توسط سے ہماری رسائی ٹام تک ہو گئی۔ بس اسی رات انھیں اسکرپٹ ای میل کر دی۔ اگلی صبح ٹام کا جواب آیا ”میں دلّی آ رہا ہوں، دو دن رکوں گا، پھر مسوری جانا ہے۔ لوٹ کر دو تین دن رک سکتا ہوں۔ اگر اس دوران شوٹنگ ہو سکے تو میں حاضر ہوں۔ پرسوں صبح مل سکتے ہیں۔“

دو دن کے بعد ملاقات ہوئی۔ میں اور فلم کے ڈائریکٹر سبھاش کپور ٹام آلٹر سے ملنے گئے۔ ہم نے اپنی مجبوری کا بھی ذکر کیا کہ آپ کی فیس ہم نہیں دے پائیں گے۔ ٹام نے کہا ”میں یہ فلم پیسوں کے لیے نہیں کر رہا، یہ میں اردو کے لیے کر رہا ہوں۔ میرے اوپر اردو کے بہت احسان ہیں، بس اس لیے یہ فلم کر رہا ہوں۔“

تو اس طرح ہوئی ہماری پہلی ملاقات۔ پھر تو اگلے کئی دن ہم ساتھ رہے۔ شوٹنگ کے درمیان ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے، ناشتے اور کھانے کے وقفے میں دنیا جہان کی باتیں ہوتیں۔ ایسی ہی کسی گفتگو کے دوران یہ معلوم ہوا کہ ٹام کے دادا اور دادی امریکہ سے تبلیغ کے مقصد سے ہندوستان آئے تھے اور یہیں کے ہو رہے۔ ٹام کے والد سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور ٹام مسوری میں۔ یہیں ان کی شروعاتی تعلیم مسوری کے مشہور ’ووڈ اسٹاک اسکول‘ میں ہوئی جہاں انھوں نے بعد میں کچھ وقت پڑھایا بھی۔ ٹام سے بات چیت کے دوران ہی معلوم ہوا کہ ابتدائی تعلیم کے دوران ہی ٹام نے والد کے اسرار پر اردو اور فارسی دونوں کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ کئی برس تک باضابطہ طور پر ایک معلم اردو اور فارسی پڑھانے کے لیے گھر آیا کرتے تھے۔

فلموں کے علاوہ ٹام لگاتار ڈراموں کی دنیا سے بھی جڑے رہے اور اسی سلسلے میں ان کی دوستی ڈاکٹر سید عالم سے ہوئی جو دہلی میں 1989 سے ڈرامے کی دنیا سےجڑےہوئے ہیں اور انھی کے ڈائریکٹ کیے ہوئے کئی ڈرامے مثلاً ابوالکلام آزاد، غالب اور کے ایل سہگل میں مرکزی کردار ٹام کا ہوا کرتا تھا اور اس بہانے بھی ٹام سے اکثر ملاقات ہوجایا کرتی تھیں۔

ایک بار جب وہ شاید مرزا غالب کی ریہرسل کے لیے آئے ہوئے تھے ہم ناشتے پر ملے۔ اردو ہندی ہندوستانی سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کے مسائل پر بات چیت ہو رہی تھی۔ میں نے کہا کہ مجھے آج تک روز مرہ کی اردو ہندی ہندوستانی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کر کے لیے جان ٹی پلٹس کی 1884 کی چھپی ہوئی ڈکشنری سے بہتر اور کوئی نہیں ملی۔ ٹام کا جو رد عمل میری اس بات پر تھا میں اس کی بالکل توقع نہیں کر رہا تھا۔ ٹام نے کہا ”ہائے کیا چیز یاد دلا دی سہیل صاحب!“ وہ مجھے اسی طرح پکارتے تھے اور میں انھیں ٹام صاحب۔ ہم دونوں 1950 میں پیدا ہوئے۔ ٹام مجھ سے 6 مہینے بڑے تھے۔ بہر حال، ٹام نے کہا کہ ان کے پاس اپنے والد کی دی ہوئی پلٹس کی ڈکشنری تھی اور وہ دو کتابیں جو ہمیشہ ان کے پاس رہتی تھیں ان میں ایک ہوتی تھی۔ مقدس انجیل اور دوسری پلٹس کی ڈکشنری۔ چند برس پہلے کسی ہوٹل کے کمرے میں چھوٹ گئی۔ کئی بار فون کیا لیکن نہیں ملی۔ میں نے کہا دلّی کی اردو اکادمی نے دوبارہ چھاپی ہے میں منگوا دیتا ہوں۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ سب بک گئیں۔ ایک دو جن کی جلد کافی خستہ حالت میں ہے بچی ہیں۔ ٹام نے کہا مجھے جلد نہیں چاہیے، بس کسی طرح ڈکشنری حاصل ہو جائے۔ ایک عدد ڈکشنری حاصل کی گئی اور اگلے دن ٹام صاحب کی خدمت میں پیش کر دی گئی۔ خوشی اور سکون کا جو عکس میں نے اس وقت ٹام کے چہرے پر دیکھا تھا اس کی یاد تاعمر میرے ساتھ رہے گی۔

کتنی محبت، دلجوئی اور لگن کے ساتھ ٹام نے دلی بھر میں پھیلے ہوئے قرون وسطیٰ کے آثاروں میں، دھوپ میں کھڑے ہو کر، جب کہ تیز دھوپ اس کی جلد کے لیے اچھی نہیں تھی، کتنی خوش اسلوبی سے، کتنی خوشی سے، کتنی لگن سے فلم کے چاروں ایپی سوڈ کو اینکر کیا، کتنی تندہی سے اسکرپٹ کو یاد کیا، تلفظ میں ذرا سے غلطی ہو جنے پر، خود اس حصے کو دوبارہ شوٹ کرنے پر اصرار کیا۔ اس سب سے نہ صرف اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہ کتنے کہنہ مشق فنکار تھے بلکہ اس کا بھی کہ وہ اردو کی تاریخ اور اس کے تہذیبی ورثے کا کتنا پاس رکھتے تھے۔ جنھوں نے ’اردو ہے جس کا نام‘ دیکھی ہے، فلم ڈسکوری چینل پر 4 برس دکھائی گئی، وہ مجھ سے متفق ہوں گے کہ ٹام آلٹر کا وجود اور اردو زبان کی مشترکہ تہذیب کے تانے بانے ایک دوسرے میں اس طرح پیوست ہیں کہ انھیں الگ کر کے دیکھنا ناممکن ہے۔ کم از کم میرے لیے تو نہیں ہے۔

بہت دیر میں تم سے ملاقات ہوئی ٹام، مگر ہر وہ لمحہ جو تمہارے ساتھ گزارا وہ اس یقین کو مستحکم کرتا ہے کہ ہندوستان آج بھی اس ملک کی مشترکہ قدروں کی وجہ سے ایک ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ سے جا کر امریکہ میں بسنے والے اجداد کی اولادیں مدارس، لاہور، سیالکوٹ، الٰہ آباد، جبل پور، سہارنپور، راج پور، دہرادون اور مسوری میں بڑی ہوتی ہیں اور اردو کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتی ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined