ادبی

سلیم شیرازی: جمالیات و تصوف کا نغمہ گر… معین شاداب

سلیم شیرازی شخص تو ایک ہی ہیں لیکن ان میں شخصیتیں کئی ہیں۔ احساس کی نم مٹی سے بنا ایک سخنور، فکرونظر کے نئے دریچے وا کرتا ایک نثرنگار، احترام زخم کی تہذیب سے آشناایک صحافی اس شہرشیراز کے خاص باسی ہیں

سلیم شیرازی کی فائل تصویر بشکریہ معین شاداب
سلیم شیرازی کی فائل تصویر بشکریہ معین شاداب 

سلیم شیرازی کی شاعری لوح وقلم سے ان کی وابستگی کا پہلا نتیجہ ہے۔ جسے انہوں نے اپنے داخلی ارتقا کا وسیلہ بنایا ہے۔ کنج الفاظ میں خود کو جلاتے رہے، کبھی چراغ بن کر کبھی ایندھن کی صورت تاکہ زمانے میں اجالے کے ساتھ آنچ بھی تقسیم کر سکیں۔ اپنے سخن میں اپنی تنہائی کی تصویریں بھی بنائیں اور زندگی کے ہنگام کا نقشہ بھی کھینچا۔ انھوں نے زخموں کے الاوَ روشن کیے، موسموں کا لطف اٹھایا۔ سلیم شیرازی کی شاعری نئے تمدن کا جشن بھی ہے اور گم شدہ تہذیب کا نوحہ بھی ہے۔ انہوں نے اپنے شعروں میں وحشتیں بھی رکھ چھوڑی ہیں تا کہ غزال کھنچے چلے آئیں۔

Published: undefined

سلیم شیرازی کی سخن سے آشنائی تو اپنے آنگن سے ہی ہو گئی تھی، شعر گوئی کا ذوق لکھنوَ میں شعری نشستوں سے پروان چڑھا۔ ان کے احساس کی مٹی بہت نم تھی سو فکر کی کونپلوں کا پھوٹنا آسان رہا۔ سیلم شیرازی کھرے تصورات کے شاعر ہیں۔ جمالیات، تصوف اور نغمگی ان کی شاعری کے بنیادی اوصاف ہیں۔ ان کی غزلوں میں رنگ ونکہت کا ایک تسلسل ہے۔ شعری گلوں میں کچھ یوں رنگ بھرتے ہیں کہ بہاریں لوٹ آتی ہیں۔ ان کی فکر کا نور ان کی غزلوں کے ماتھے پر جھومر کا کام کرتا ہے۔ ان کے سخن کی شب بیداریاں راتوں کو آباد رکھتی ہیں۔

Published: undefined

سلیم شیرازی شدّت احساس کے شاعر ہیں لیکن ان کے یہاں شدّت جذبات بھی کارفرما ہے :

اس کو کیا کہیے کہ جو اپنے ہی ہاتھوں سے سلیم

خواب کی فصل کو تیزاب پلا کر دیکھے

روز بیداری کے تیزاب میں گل کر کچھ لوگ

خود سے آوارگی شب کا صلہ لیتے ہیں

یہ سوچ کر کہ منت مرہم اٹھائے کون

تیزاب ہی انڈیل لیا ہم نے گھاوَ پر

Published: undefined

ان اشعار میں خود انتقامی کی اذیت ہے۔ مثلاً خواب کی فصل پر تیزاب ڈالنا ’’خود سے آوارگی ِ شب کا صلہ لینا‘‘۔ خود انتقامی کی یہ کیفیت کم ہی لوگوں کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہر شاعر کی کوئی نہ کوئی انفرادیت ہوتی ہے۔ یہ خود اذیتی، خود انتقامی اور خود ہزیمتی سلیم شیرازی کی پہچان ہے۔ یہی نہیں ان کے یہاں خود شکنی کی جراَت بھی ہے :

کبھی بت شکن تھے، پر اب خود شکن

یہ الزام بھی اپنے سر ہے میاں

Published: undefined

غیرت نفس، خوداری، انا جو سلیم شیرازی کی ذات کے اجزائے ترکیبی ہیں یہ ان کے سخن کی بھی جان ہیں۔ وہ اپنے جذبوں کے اس خزانے کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان کے مختلف اشعار میں یہ جادو سر چڑھ کر بولتا ہے:

شہرت کی آرزو ہے نہ طالب ہیں مال کے

رکھا ہے بس متاع انا کو سنبھال کے

سر پھری سرکش ہوا سے بچ نکلنا تھا محال

زندگی دے کر بچا پائے ہم اپنا سر میاں

Published: undefined

سانسوں کی قیمت پر سر بچا پانے کا یہ سودا ان کا وقارہے۔ وہ حق پرست ہیں اور حق پسندی کے انجام سے بھی واقف ہیں :

چاہو حق کی انا کا تحفظ اگر

پہلے نیزے پہ خود اپنا سر دیکھنا

غالب نے کہا تھا:

ہاں کھائیو مت فریب ہستی

ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

عالم تمام حلقہَ دام خیال ہے

Published: undefined

فریب ہستی کا یہ فلسفہ سلیم شیرازی کے یہاں بھی نمو پاتا ہے۔ وہ بھی ہستی کے دام میں نہ آنے کی جستجو کرتے ہیں۔ یہ صوفیوں کا نظریہ بھی ہے۔ وہم وخیال، ہستی ونیستی، حقیقت و باطل کا فرق اور ان کے باہمی تعلق کی باریکیوں کے افہام کی کوشش آسان کام نہیں ہے۔ ان کے بعض اشعار میں یقین وگمان کا تصادم بھی ملتا ہے، مثلاً یہ شعر دیکھیں :

پھر یوں ہوا کہ روشنی مصلوب ہو گئی

کچھ دور تک ساتھ یقین وگماں چلے

Published: undefined

سلیم شیرازی کی شاعری میں تخاطب کی کئی صورتیں ہیں۔ اپنے محسوسات کے عام بیان کے ساتھ وہ براہ راست زمانے سے بھی مخاطب ہوتے ہیں، جس میں ان کا مخاطب فرد بھی ہوتا ہے اور اجماع بھی اور وہ اپنے آپ سے بھی گفتگو کرتے ہیں۔ کبھی کبھی بظاہر وہ خود سے مخاطب نظر آتے ہیں مگر ان کا روئے سخن زمانے سے ہوتا ہے۔ اظہار کی یہ مختلف کیفیتیں ان کے شعری رنگ وآہنگ میں ڈھلتی جاتی ہیں۔ ان کی یہ خود کلامی شب بسری کا فن بھی بن جاتی ہے:

شب گذاری کو یوں ہنر کرنا

گفتگو خود سے رات بھر کرنا

Published: undefined

ان کے اشعار میں تنہائی کا ایک تسلسل ہے۔ تنہائی ان کے یہاں مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ وہ زخموں کو پھول بنا کر اپنے اکیلے پن کو معطر کر لیتے ہیں اور ایکانت میں اپنے کمرے میں کئی طرح کے موسم سجا لیتے ہیں :

گھر کے گلدان میں کچھ پھول سجا لیتے ہیں

ہم بھی کس طور سے موسم کا مزہ لیتے ہیں

سلیم شیرازی تہذیب سماعت سے آشنا ہیں۔ کبھی وہ کسی ٹوٹے ہوئے ستارے کی صدا سننے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی کسی مجروح طائر کی چیخ ان کے سخن سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے:

یہ میرا وہم ہے شاید مگر میں نے سنا ہے

مرے اندر کوئی زخمی پرندہ چیختا ہے

Published: undefined

سلیم شیرازی کی شاعری اپنے عہد سے ہم آہنگ ہے۔ وہ اپنے عصر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں اقلیتوں کا درد موجزن ہے۔ کہیں کہیں ان کی غزلیں عصبیت ونفرت کی شکار ایک قوم کا نوحہ بن گئی ہیں۔ ظالم کو بھی اندیشوں سے آگاہ کرتی ہیں :

ہر شہادت تھی جب مرے حق میں

فیصلہ کیوں مرے خلاف ہوا

ہم کو چمن بدر تو کرو ہو مگر حضور

ماروگے کس کو ہم کو چمن سے نکال کے

Published: undefined

سلیم شیرازی احساس محرومی اور شکست آرزو کا بیان بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے اس نجی کرب کو سب کا دکھ بنانے کی کوشش کی ہے:

زرد پتوں کے سوا کچھ بھی نہ ہاتھ آیا ہمیں

ہم نے آنگن میں کئی پیڑ لگا کر دیکھے

سلیم شیرازی نے آیات عشق بھی خوب لکھی ہیں۔ انھیں شعروں میں جمال بھرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ ان کے اشعار میں پیکر تراشی کا عمل بھی متوازی طور پر جار ی رہتا ہے۔ بصری، سمعی، حسی، لمسی پیکر تراشے ہیں :

تو کہ اک پیکر رنگینی و رعنائی ہے

سارے رنگوں کی پھبن تجھ میں سمٹ آئی ہے

ایسا لگتا ہے کہ برسات کی یہ مست ہوا

تھوڑا کاجل بھی ان آنکھوں سے چرا لائی ہے

میٹھے سر میں جب یادوں کی شہنائی لہرائے ہے

خوشبو اس شہکار بدن کی روح کو مہکا جائے ہے

Published: undefined

ان کے اشعار میں یہ جمال صرف محبوب کی توصیف یا حد بدن تک نہیں ہے، بلکہ اس کا دائرہ وسیع تر ہے، یہ رومانس اور حسن زندگی کے مختلف گوشوں تک پھیلا ہوا ہے :

کچھ ستارے نکال جھولی سے

اب کے بے نور ہے سحر بابا

Published: undefined

سلیم شیرازی اپنی فکر اور ہنر سے غزل کے نئے خدوخال ابھارتے ہیں۔ یہ اشعار ملاحظہ کریں اور ان کی ہنرمندی دیکھیں۔ کس طرح غزل نئی فضا تلاش کر رہی ہے، نیا لہجہ اختیار کر رہی ہے اور نئے ذائقے سے آشنا ہو رہی ہے:

اے پنچھیو! تمھیں کوئی صورت نکالنا

صیاد بھول جائے اگر جال ڈالنا

خوشبو کو پھوٹے منہ بھی کوئی پوچھتا نہیں

وہ دور ہے کہ صرف بدن کی زباں چلے

چاند معصوم بوڑھے کی مٹھی میں تھا

لوگ ڈھونڈا کیے آسمانوں کے بیچ

زخم کی فصل ہی ہر سال مقدر ٹھہری

جانے ہم کیسے فقیروں کی دعا لیتے ہیں

سنگ باری ترا مفہوم بدل جاتا ہے

ہم جو بھولے سے کبھی سر کو جھکا لیتے ہیں

جال زخمی پرندو! اڑا لے چلو

بعد میں قوت بال و پر دیکھنا

سر جھکانا تو ہم بھی سیکھ گئے

ہے بس اک آنچ کی کسر بابا

سلیم شیرازی کی شاعری آئندگان کے لئے یقیناً نشان راہ ثابت ہوگی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined