اردو ادب میں بے باک لکھنے والوں اور تنازعات کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔عصمت چغتائی ہوں یا سعادت حسن منٹو انکے افسانے تنازعات کا شکار رہےہیں۔ نگار عظیم بھی اردو کی ایک ایسی ہی قلمکار ہیں جنکے بعض افسانوں کو، اردو ادب پر دھبہ کہا گیا۔ نگار عظیم کے ساتھ تو ایک ستم یہ بھی ہوا کہ انکے ایک افسانے کو ایک معروف قلمکار کے افسانے کا چربہ تک کہہ دیا گیا۔منٹو پر تحقیقی مقالہ لکھنے پر انکوطعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا۔نگار عظیم کے ادبی قد کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہیکہ دو یونیورسٹی اسکالرس انکی ادبی خدمات پرایم فل کر چکے ہیں۔تین افسانوی مجموعات کے علاوہ انکی مرتب کردہ متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ کون ہیں یہ نگار عظیم اور اردو فکشن نگاری میں انکا کیا مقام و مرتبہ ہے اس پر تفصیل سے بات کرنے سے پہلے نگار عظیم کے خاندانی پس منظر ، تعلیم و تربیت اور ادبی رجحان کے محرکات کا جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
Published: undefined
نگار عظیم کا اصل نام ملکہ مہر نگار ہے ۔آرٹسٹ اور قلمکار عبدالعظیم صدیقی سےشادی کے بعد وہ نگار عظیم ہو گئیں۔23ستمبر1951 کو اتر پردیش کے تاریخی شہر میرٹھ کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں آنکھیں کھولنے والی نگار عظیم کے والد اردو کے کہنہ مشق شاعر, ماہر عروض اور ادیب ثروت حسین ثروت تھے۔انکو' سحبان الہند' کا خطاب عطا ہوا تھا۔وہ شوقیہ طور پر مصوری بھی کرتے تھے۔نگار عظیم نے بچپن سے ہی گھر میں شعرا اور ادیبوں کا آنا جانا دیکھا۔شعری نشستیں سجتی دیکھیں۔ادبی تزکرے اور بحث و مباحثے سنے۔ گھر کا آنگین خوش رنگ پھولوں سے مہکتادیکھا۔۔مختلف اقسام کے پیڑ پودوں سے گھر کی کیاریاں سجی دیکھیں۔والد کو پیڑ پودوں کی دیکھ بھال کرتے اور شاخوں کو تراشتے دیکھا۔قدرتی حسن سے معطر اور ادبی چاشنی سے لبریزماحول نے نگار عظیم کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ انکے والد بچپن سے ہی انکے آئڈیل رہے بلکہ نگار عظیم کے الفاظ میں وہ اپنے باپ کی عاشق تھیں۔ اسی عشق کا نتیجہ تھا کہ وہ باپ کے ذوق اور شوق کو اپناتی چلی گئیں۔دوسری طرف انکے والد بھی نگار عظیم کو اپنی دیگر اولادوں کی نسبت زیادہ چاہتے تھے۔ انہیں اپنی اس بیٹی کے اندر اپنی جھلک نظر آتی تھی۔مصوری کا شوق اور شعرو ادب کا ذوق نگار عظیم کو اپنے باپ سے ورثے میں ملا۔مصوری کے شوق نے انہیں فائن آرٹس میں ایم اے کرنے کو مجبور کیا تو ادبی ذوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہوں نے اردو میں ایم اے کیا۔ سعادت حسن منٹوں کی افسانہ نگاری پر تحقیقی مقالہ لکھ کر انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔والد بھی درس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ تھے تو نگار عظیم بھی دہلی کے ایک سرکاری اسکول میں طلبا کو آرٹ کی باریکیاں سکھاتی تھیں۔
Published: undefined
نگار عظیم کے ادبی ذوق کی ابتدا شاعری سے ہوئی وہ طالب علمی کے دوران ہی شاعری کرنے لگی تھیں۔ لیکن والد کے سمجھانے بجھا نے کے بعد شاعری کے شوق کو کافی عرصہ تک اپنے سینے میں دفن کئے رکھا۔ والد کے مشورے پر نثرنگاری کی طرف توجہ مبزول کی۔انکا پہلا افسانہ1974 میں دہلی کے ایک رسالے' شان ہند 'میں شائع ہوا۔شاعری کی طرح نثر نگاری کا سلسلہ بھی گھر میں سب سےچھپتے چھپاتے ہی چل رہا تھا لیکن ایک دن بھانڈہ پھوٹ گیا۔ بات انکی والدہ کو معلوم ہوئی اور والد تک پہونچ گئی۔ لیکن اس بار والدنے ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی بلکہ پاس بٹھا کر نثرنگاری کی باریکیاں سمجھائیں اور مشورہ دیا کہ لکھنے کے بعد اور کسی رسالے میں بھیجنے سے پہلے کسی کو دکھا لیا کرو۔ اس سے نگار عظیم کو ہمت و حوصلہ ملا۔ نگارعظیم شادی کے بعد اس معاملے میں بھی خوش قسمت رہیں کہ انہیں شوہربھی ہم شوق و ہم مذاق ملا۔ انکے شوہر عبدالعظیم صدیقی آرٹسٹ بھی تھے اورادیب اور صحافی بھی ۔نگار عظیم کو کچھ فن اور شوق ورثے میں ملے تو کچھ فن اور شوق شوہر کی ہم نشینی کی بدولت میسر آئے۔ فوٹو گرافی کا شوق اور صحافتی سمجھ بوجھ شوہر کی ہم نشینی کی بدولت حاصل ہوئی۔ایک دور میں وہ دہلی میں ماہر لیڈی فوٹو گرافر کے طور پر معروف تھیں۔ شاہین باغ میں مسلم خواتین کی احتجاجی سرگرمیوں کو 'فیس بک' اور' ٹویٹر' جیسے سماجی رابطے کے پلیٹ فارموں پر وائرل کرکے نگار عظیم نے اپنی صحافتی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کیا۔ نگار عظیم کو سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری پر تحقیقی مقالہ لکھنے اور اسکو شائع کرانے میں بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔رجسٹریشن سے لیکر ڈگری ملنے تک قدم قدم پر انکی راہ میں روڑے اٹکائے گئے۔ایک عورت کا منٹو پر تحقیقی کام بہت سے لوگوں کو ہضم نہیں ہورہا تھا۔انکے اوپر فقرے بازی ہوتی تھی۔ انہیں بھدے مزاق کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔انکو تھیسس مکمل کرنے میں پانچ برس لگ گئے اور ادب کے بڑے بڑے جغادری اس کوشش میں تھے منٹو پر نگار عظیم کی یہ تھیسس چھپنے نہ پائے۔ مالی دشواریوں کے سبب اپنے طور پر اسے شائع کرنا نگار عظیم کے بس میں نہیں تھا۔ بمشکل تمام دہلی اردو اکیڈمی نے اس تھیسس کا ایک حصہ شائع کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ منٹو پر اس تھیسس کی اشاعت میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی ایک وجہ کچھ عرصہ بعد لوگوں کی سمجھ میں اس وقت آئی جب نگار عظیم کے کچھ نکات کا چربہ کرتے ہوئے منٹو کی افسانہ نگاری پر پے در پے کئی کتابیں منظر عام پر آئیں۔
Published: undefined
فوٹو گرافی،مصوری اورقدری مناظر سے لگاؤ نگار عظیم کی شخصیت کے جزوی پہلو ہیں انکی اصل اور حقیقی شخصیت انکی افسانہ نگاری کے فن سے ہویدا ہوتی ہے۔انکے افسانے زندگی، سماج اور عورت کے رنگا رنگ روپوں سے عبارت ہیں۔ نگار عظیم کے افسانوں میں پائی جانے والی عورت زمین سے جڑی ہے۔ وہ غم کھاتی ہے اور آنسو پیتی ہے۔ رشتوں کو سمیٹنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔اسکا وجود محبت سے بھرا ہے۔حوصلہ مند ہے۔اولوالعزم ہے۔قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے۔ حالات سے ہارنا نہیں جانتی۔اپنے اصولوں پر جیتی ہے۔ بیچاری بن کر رہنا نہیں چاہتی۔حالات سے مقابلہ کرتی ہے۔ کبھی کبھی سمجھوتہ بھی کرلیتی ہے لیکن ظلم سہنے کی عادی نہیں۔ مزاج میں بغاوت ہے لیکن خود سری اور سرکشی نہیں۔ محبت میں موم کی طرح پگھل جاتی ہے لیکن کردارپر آنچ نہیں آنے دیتی ہے۔اسکی جیت بھلےہی سماج کی جیت نہ ہو لیکن اسکی ہار سماج کے منھ پر طمانچہ سے کم نہیں ہوتی۔
Published: undefined
نگار عظیم کی فکشن نگاری تنازعات سے مبرا نہیں رہی ہے۔' گہن'،پھانس'،مرد'، بیل'،'تکمیل 'اور 'جشن' جیسے انکے افسانوں پر 'جنسیت زدہ 'ہونے کا الزام لگاتے ہوئے انہیں اردو ادب پر دھبہ قرار دیا۔یہ بھی کہا گیا کہ انکے افسانوں میں تکنیک کی کمی ہےاور ایک افسانے' عکس' کے بارے میں کہا گیا کہ یہ سریندر پرکاش کے ایک افسانے کا چربہ ہے۔ تنقید و تنقیص کے ان تمام محاذوں پر نگار عظیم کا دفاع کرنے کے لئے وکیلوں کی طرح اردو ادب کی کئی قدآور شخصیات میدان میں آگئیں۔ معروف نقاد ڈاکٹر قمر رئیس،پروفیسر محمد حسن، معروف فکشن نگار نور الحسنین، جوگندر پال اور پیام آفاقی جیسی شخصیات نے نگار عظیم کا ان سب محاذوں پر زوردار دفاع کیا۔جوگندر پال نے تو' عکس' افسانے کو اردو فکشن کے منتخب افسانوں میں شامل کرکے ناقدین کے منھ پر طمانچہ رسید کیا۔
نگار عظیم کے افسانوں کے جنسیت زدہ ہونے کے الزام کے جواب میں معروف فکشن نگار نور الحسنین کہتے ہیں کہ'' جنسی جبلت اور جنسی خواہشات فرد کی اہم ضرورت ہے لیکن انکے افسانوں کا کمال یہ ہیکہ وہ جنسی موضوعات میں بھی معاشر ےکی اعلیٰ قدروں کو پامال نہیں ہونے دیتیں۔بہکے ہوئے قدم بھی تھم جاتے ہیں اور رشتوں کا تقدس اپنا اثر دکھانے لگتا ہے''۔
Published: undefined
نگار عظیم کی بڑی خوبی انکی زبان کی سلاسلت، شیرینی اور شاعرانہ انداز بیان ہے۔انکا انداز کہیں کہیں مکالماتی بھی ہو جاتا ہے جو لطف دیتا ہے۔وہ جو کچھ بھی لکھتی ہیں پڑھنے والے کو اپنے طرز تحریر کے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔ افسانہ 'لمس' کا یہ اقتباس پڑھ کر خود تجربہ کر لیجئے۔
''موسم انتہائی خوشگوار تھا۔ بارش کی مندمند پھوہار نے موسم میں مزید تازگی بھر دی تھی۔ لیکن میرے اندر کے کسیلے پن نے اس روح پرور موسم کے لطف سے مجھے محروم رکھا۔ بس کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اسے اتفاق کہیے یا موسم کا کرم کہ بس میں سواریاں بہت کم تھیں لہٰذا خالی سیٹیں دیکھ کر بیٹھ گئی۔ بہت کوشش کی کہ اس دھلے اجلے سرمئی موسم میں بوندوں کی چھیڑخانی سے نازک نازک پھولوں کا اور ہری ہری پتیوں کا لجانا دیکھوں اور ہری بھری پیاسی گھاس کا بچھ بچھ جانا دیکھوں، لطف لوں اور سب کچھ بھول جاؤں۔ لیکن پروفیسر پانڈے بار بار میرے ذہن کے پردے پر ابھر آتے۔''
Published: undefined
نگار عظیم کا پہلا عشق شاعری تھا۔عشق اور رومانی جذبات کا بیان ہی انکی شاعری کا غالب عنصر ہے۔۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ شاعری میں انہوں نے کیا گل کھلائے ہیں۔
پہلی سی چاہتوں کے وہ منظر نہیں رہے
عاشق تو بے شمار ہیں دلبر نہیں رہے
۔۔
اس عہد نو میں اور تو سب کچھ ملا مگر
شرم و حیا کے قیمتی زیور نہیں رہے
۔۔
گلا کیا نہ کبھی تم سے بے وفائی کا
لبوں پہ آہ کا آنا عجیب لگتا ہے
۔۔۔
خود ہی زخموں سے سجایا دل کو
اور پھر جشن منایا میں نے
۔۔۔۔
مانگنے چل تو دئے اس سے دل اپنا واپس
وہ مگر پھر نہ کوئی تازہ بہانا کر دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگارؔ خانۂ دل میں بسی ہے ویرانی
مکیں چلا گیا لیکن مکان باقی ہے
۔۔۔
ہر چند کہ یہ ضروری نہیں ہیکہ ناول لکھنے بغیر کوئی قلمکار اچھا فکشن نگار نہیں بن سکتا لیکن انکی تحریروں سے خود کو جڑا ہوا محسوس کرنے والوں کو انکے قلم سے ایک آدھ ناول کے وجود میں آنے کی توقع ضرور ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined