مجاز لکھنوی، ذہانت کی اونچائی کو چھوتا ہوا ایک ایسا شاعر تھا جو جہاں فانی سے بہت کم عمری میں گزرگیا مگر اپنی ان مٹ چھاپ اردو زبان، اردو شاعری ، ترقی پسند تحریک اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر اس طرح چھوڑ گیا کہ اس کے دھندلے پڑنے کے آثا ر آج بھی نظر نہیں آتے۔ یہ چھاپ اتنی گہری ہے کہ جدید دور کی شاعری، ترقی پسند تحریک اور علی گڑھ کا ذکر بنا مجاز لکھنوی کے ادھورا سا لگتا ہے۔ مجاز کی 44 سالہ زندگی پر نظر ڈالیں تو بحیثیت شاعر ان کی عمر اور بھی مختصر نظر آتی ہے۔ ایسے دور میں جب اردو شاعری اپنے معراج پر پہنچی ہوئی تھی، اس کے افق پر فراق، جوش ، فیض، فانی، مخدوم، جانثار، علی سردار، جذبی جیسے تابناک ستارے ابھر رہے تھے ،کسی بھی شاعر کے لئے اپنی خاص جگہ بنانا مشکل تھا۔ اس دور میں مجاز کچھ لمحوں کے لئے اردو شاعری کے آسما ن پر چمکے اور ایسی روشنی بکھیر کر گل ہو گئے جو آج بھی نوجوان نسلوں کے دلوں کو گرما دیتی ہے۔
مجازکی شخصیت اور شاعری نے اتنا گہرا اثر کیوں چھوڑا ، اس سوال کا جواب ڈھونڈھناآسان نہیں، اس کی کچھ وجہ ضرور تلاش کی جا سکتی ہے۔ میری نظر میں مجاز کی مقبولیت کی تین بڑی وجہیں ہیں، پہلی ہے دورِ نَو کے خیالات کی عکاسی، دوسری ان کی عام فہم زبان اور تیسری جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ ان کی شاعری میں بلا کی دیانت داری ۔ مجاز شاعری کرنے کے لئے خیالات تلاش نہیں کرتےبلکہ خیالات کی عکاسی کے لئے شاعری کو ذریعہ بناتے ہیں۔ اپنے خیالات کو پوری ایمانداری کے ساتھ نوجوان ذہنوں تک پہنچاتے ہیں۔ جب وہ لکھتے ہیں۔
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے ایک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
تب انہیں اس بات کا پوری طرح علم ہے کہ گھر، آنگن، خاندان، سماج اور علی گڑھ یا ان شہروں میں جہاں انہوں نے زندگی گزاری کوئی عورت بنا سر ڈھکے چل نہیں سکتی۔ ایسے دور میں اور اردو زبان کی تاریخ میں، مجاز پہلی بار عورتوں کو آنچل کا پرچم بنانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ذرا سوچیے علی گڑھ کے ’ملّاؤں ‘اور ’مذہبی‘ شدت پسندوں نے انہیں کیسے برداشت کیا ہوگا۔ جذبات کی ایمانداری اور عام فہم الفاظ میں دو ٹوک بات کہنے سے ان ساری لمبی لمبی زبانوں پر لگام لگا دی جو آج بھی ان خیالات کی حمایت میں کھڑا ہونا پسند نہیں کریں گے۔
’خانہ بدوش ‘ نظم کا بند ہے:
اٹھے ہیں جس کی گود سے آذر وہ قوم ہے
توڑے ہیں جس نے چرخ سے اختر وہ قوم ہے
پلٹے ہیں جس نے دہر کے دفتر وہ قوم ہے
پیدا کئے ہیں جس نے پیمبر وہ قوم ہے
اب کیوں شریک حلقۂ نوع بشر نہیں
انسان ہی تو ہیں یہ کوئی جانور نہیں
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بنجاروں کی جو شہر شہر اورگاؤں گاؤں مارے مارے پھرتے ہیں ان کی کیا حیثیت ہے، مجاز نے انہیں جس نظر سے دیکھا وہ چونکا دینے والی تھی اور اس نظر میں شدت جذبات اپنے پورے عروج پر ہے۔
ان کی مشہور نظم ’بول اری او دھرتی بول‘ یا’ سرمایہ داری ‘کو ہی لے لیجئے
بول اری او دھرتی بول کا بند ہے
کیاافرنگی کیا تاتاری
آنکھ بچی اور برچھی ماری
کب تک جنتا کی بے چینی
کب تک جنتا کی بے زاری
کب تک سرمایہ کے دھندے
کب تک یہ سرمایہ داری
بول! اری او دھرتی بول!
اگریہ نظر کسی کے دل و دماغ پر اثر نہ کرے تو یا تو اسے اردو نہیں آتی یا اس کا دل پتھر کا ہے اور ذہن ماؤف ہے۔
مجاز نے سرمایہ داری نظام کی جس طرح مذمت کی اس کی اور مثال اردو ادب میں نہیں ملتی ۔ اس نظم میں بھی شدت جذبات کچھ اتنی تیز تھی کہ سرمایہ داری کی حمایت کرنے والوں کی زبان پر تالا لگ گیا۔
کلیجہ پھنک رہا ہے اور زباں کہنے سے عاری ہے
بتاؤں کیا تمہیں کیا چیز یہ سرمایہ داری ہے
یہ وہ آندھی ہے جس کی رو میں مفلس کا نشیمن ہے
یہ وہ بجلی ہے جس کی زد میں ہر دہقاں کا خرمن ہے
اس نظم کاآخری بند ہے:
ہمیشہ خون پی کر ہڈیوں کے رتھ میں چلتی ہے
زمانہ چیخ اٹھتا ہے یہ جب پہلو بدلتی ہے
گرجتی گونجتی یہ آج بھی میداں میں آتی ہے
مگر بد مست ہے ہر ہر قدم پر لڑکھڑاتی ہے
مبارک دوستو لبریز ہے اب اس کا پیمانہ
اٹھاؤ آندھیاں کمزور ہے بنیاد کاشانہ
مجاز کی نظم ’آوارہ ‘ نے اس وقت کی پوری اردو دنیا کو چونکا دیا ، دور حاضر اور اگلے زمانے کے شاعروں کو، اردو شاعری میں استعمال ہونے والی تشبیہات اور تلمیحات کو نئے انداز میں دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ اس نظم میں چاند کو ’ملا کا امامہ ‘، ’بنیے کی کتاب‘، ’مفلس کی جوانی‘ اور ’بیوہ کے شباب‘ جیسی بے کار، لاحاصل چیزوں سے تشبیہ دینے کی جسارت کسی شاعر نے، اردو شاعری میں پہلی بار کی تھی۔ اب تک چاند عشق، خوبصورتی اور معشوق کے معنی میں استعمال ہوتا رہا تھا۔ ویسے تو پوری نظم کے رنگ ہی عجیب طرح سے دل پے اثر کرتے ہیں مگر یہ بند عجیب تر ہے۔
اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب
جیسے ملا کا عمامہ جیسے بنیے کی کتاب
جیسے مفلس کی جوانی جیسے بیوہ کا شباب
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
شاید یہی وہ نظم ہے جس نے بعد میں ساحر لدھیانوی کو اپنی نظم ’یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا‘ کہنے پر مجبور کیا ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مجاز کی ذہانت بزلہ سنجی اور حاضر جوابی آج بھی بہت مشہور ہے۔ ان کے لطیفے نسل در نسل سنے اور سنائے جاتے رہے ہیں۔ ان میں سے کئی لطیفے ، جوش ملیح آبادی نے اپنی کتاب ’یادوں کی بارات‘ میں قلم بند بھی کئے ہیں۔ ان میں سے دو کا ذکر کرتا چلوں۔
مشاعرہ اپنےعروج پر تھا، سارے شعراء اسٹیج پر تشریف فرما تھے، فراق صاحب نے اپنی گونج دار بھاری بھرکم آواز میں زور سے کہا ’پیشاب لگا ہے بیت الخلاء تک لے جاؤ۔ ‘ مجاز بر جستگی سے بولے ’جذبی لے جائیے‘۔ معین احسان صاحب جن کا تخلص ’جذبی‘ تھا وہیں برابر میں بیٹھے تھے۔ جو قہقہہ اس وقت گونجا تھا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آج بھی گونج رہا ہے۔
مجاز بہ بانگ دہل اپنے کو منکر اور دہریہ کہا کرتے تھے، پھر بھی انہیں علی گڑھ میں صرف برداشت ہی نہیں کیا جاتا تھا بلکہ وہ ایک ہیرو کی حیثیت رکھتے تھے۔ ایک قصہ جو مجاز کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے کچھ اس طرح ہے کہ ایک رات نشہ کی حالت میں مجاز جب آدھی رات کو ہاسٹل میں اپنے کمرے میں لوٹ رہے تھے تو بجائے اپنے کمرے میں جانے کے، بھٹک کر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جامع مسجد میں داخل ہو گئے۔ ایک مولانا نماز پڑھ کر نکل رہے تھے۔ اندھیرے میں مجاز کو پہچانا اور حیرت سے پوچھا ’آپ اور یہاں مسجد میں اس وقت‘ مجاز کی حاضر جوابی اس وقت بھی پورے آب و تاب سے جاگ رہی تھی۔ بر جستہ بولے ’آدمی کو بگڑتے دیر نہیں لگتی۔‘ جب انسان قدآدم سے اوپر اٹھ جاتا ہے تو اس کے خیالات سے نفرت کرنے والے بھی اس کی عظمت کے ٓاگے سر جھکا دیتے ہیں۔
اگر کسی کو اس ہر دل عزیز اور ہمیشہ نوجوان رہنے والےاس شاعر کا جادو دیکھنا ہو تو علی گڑھ کے کسی ایسے پروگرام میں شرکت کر لیں جس میں اے ایم یو کا ترانہ گایا جانا ہو۔ تقریب کیسی بھی ہو اس کی جان اے ایم یو کا ترانہ ہی ہوتا ہے جسے مجاز نے لکھا تھا۔ ترانہ شروع ہوتے ہی ایک سحر، ایک جادو سب پر طاری ہو جاتا ہے۔ ترانے کی آخری لائنوں تک پہنچتے پہنچتے سب پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور سامعین دیوانہ وار ترانے میں شامل ہو جاتے ہیں۔
مجاز تب تک زندہ ہے جب تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز