پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیابیوں کو سر کرنے والی بیشتر شخصیات کا تعلق ہندوستان سے رہا ہے۔ ان میں نابغہ روزگار شخصیت علامہ طالب جوہری بھی شامل ہیں۔ ان کی شخصیت کسی ایک جہت تک محدود نہیں ہے۔ ان کی حیثیت عالم دین، مفسر قرآن، ماہر تاریخ، مفکر، دانشور، خطیب اور شاعر کے طور پر مسلم ہے۔ ان کی دینی خدمات، مفسر قرآن، ماہر تاریخ، مفکر، دانشور اور خطابت کے فن سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر صرف ان کی شعری خدمات کا ہی جائزہ لیا جائے تو کئی اسکالرز پی ایچ ڈی کرسکتے ہیں۔ ان کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ انہوں نے نظموں کے علاوہ منفرد نوعیت کے دو مراثی بھی نظم کئے ہیں۔ مختلف میدانوں میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں پاکستان کے باوقار انعام 'نشان امتیاز' سے نوازا جا چکا ہے۔ ان کی شاعری پر ایک تجزیاتی کتاب بھی لکھی جا چکی ہے۔علامہ طالب جوہری کی اردو خدمات کے موضوع پر پاکستان کے ایک نوجوان عالم دین، محقق اور مصنف مولانا ارتضیٰ عباس نے ایم فل بھی کیا ہے۔ علامہ طالب جوہری کی علمی اور شعری اساس پر گفتگو کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
طالب جوہری نے 27 اگست 1939 کو ریاست بہار کے شہر پٹنہ میں آنکھیں کھولیں، ان کے جد مولانا مسلم حسین گنج سارن بہار کے رہنے والے تھے۔ یہ گھرانہ برسہا برس تک سارن کے حسین گنج میں آباد رہا۔ بعض شواہد کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ طالب جوہری کی ولادت گورکھپور میں ہوئی۔ خوش قسمتی سے انہیں گھرانہ بھی ایسا نصیب ہوا جو علمی، دینی اور ادبی لحاظ سے بہت دولتمند تھا۔ ان کے والد مولانا محمد مصطفیٰ جوہراور چچا مولانا مرتضیٰ جوہر دونوں جید علما میں شمار کئے جاتے تھے۔ والد محمد مصطفیٰ جوہر بذات خود ایک بہترین شاعر تھے۔ 1949 میں ان کا گھرانہ ہجرت کرکے کراچی منتقل ہوگیا۔
Published: undefined
درس و ریاضت کی ابتدائی منزلیں علامہ محمد مصطفیٰ جوہر جیسے شفیق والد اور چچا مولانا مرتضیٰ جوہر جیسے علما کی نگرانی میں طے کرنے کے بعد طالب جوہری اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے نجفِ اشرف عراق چلے گئے۔ نجف اشرف کے حوزہ علمیہ میں طالب جوہری نے 12برس تک کسب علم کیا اور سند اجتہاد حاصل کی، طالب جوہری کو آیت اللہ سید محسن طبا طبائی، آیت اللہ ابولقاسم خوئی، آیت اللہ خمینی، اور شہید آیت اللہ باقر الصدر جیسے اساتذہ کی نگرانی میں اصول و فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ آیت اللہ سیستانی ان کے سینئر تھے جبکہ ہندوستان کے عالم دین مولانا ذیشان حیدر جوادی ان کے ہم جماعت تھے۔ نجف سے واپس آنے کے بعد وہ کافی عرصہ کراچی کے جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے۔ وہ ایک سرکاری کالج سے اسلامیات کے لیکچرار کی حیثیت سے بھی وابستہ رہے۔ تفسیر اور مطالب قرآن پر ان کی گرفت کے جوہر پاکستان ٹیلی ویزن کے پروگرام ’فہم القرآن‘ کے ذریعے دنیا پر آشکار ہوئے اور خطابت کے جوہر 'خطیب شام غریباں' کی حیثیت سے کھلے۔
Published: undefined
علامہ طالب جوہری متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ "احسن الحدیث" کے عنوان سے تفسیر قرآن ان کی شناخت کا سب سے بڑا حوالہ ہے۔ انہوں نے حدیث کربلا جیسا مقتل ترتیب جسے مستند ترین مقتل کا درجہ حاصل ہے (مقتل اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں واقعہ کربلا تفصیل سے بیان کیا جائے)۔ فلسفے جیسے دقیق موضوع پر ’’عقلیاتِ معاصر‘‘ کے نام سے بھی انہوں نے ایک کتاب قلم بند کی۔ 'ذکرِ معصوم'، 'نظامِ حیاتِ انسانی'، 'خلفائے اثناء عشر' اور 'علاماتِ ظہور مہدی' کے عنوان سے بھی انہوں نے کتابیں لکھ کر اپنے زور قلم اور دینی و علمی استعداد کا لوہا منوایا ہے۔ معیشت جیسے خشک موضوع پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ ''اسلامی معیشت'' کے عنوان سے انہوں نے ایک کتاب تحریر کی جو اسلام کے معاشی نظام سے جدید دنیا کو روشناس کرانے میں معاون ہے۔
Published: undefined
خطابت، فلسفہ،علم حدیث اور علم تفسیر پر دسترس اور آئمہ اطہار کی تعلیمات اور فلسفہ کربلا کی اشاعت اور تشہیر طالب جوہری کی شخصیت کے گراں قدر پہلو ہیں جو ان کی فکری بصیرت سے عبارت ہیں لیکن اگر طالب جوہری کی شعری فکری اساس اور شاعرانہ عظمت کا اعتراف نہ کیا جائے تو ان کی ہشت پہلو شخصیت کا کما حقہ احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ شعر گوئی کی صلاحیت اور دینی اور مذہبی فکر و تدبر ان کو اپنے والد اور چچا سے ورثے میں ملا۔ طالب جوہری نے آخر دم تک ان ورثوں کو سنبھال کر رکھا۔ طالب جوہری، خطیب، فلسفی، مفسر قرآن اور مفکر بننے سے پہلے شاعر بن چکے تھے۔ انہوں نے سند اجتہاد بعد میں حاصل کی اپنی شعری تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا پہلے منوایا۔ سخن سنجی اور سخن گوئی ان کی طبیعت میں رچی بسی تھی۔ جس کے ثبوت کے طور ان کی شاعری کے تین مجموعے''حرفِ نمو''، ''پسِ آفاق'' اور ''شاخِ صدا'' کی صورت میں موجود ہیں۔ وہ پہلا مرثیہ 1968 میں ہی نظم کر چکے تھے۔
Published: undefined
طالب جوہری نے اپنی شاعرانہ عظمت کا دم کبھی نہیں بھرا۔ شوق کی تسکین کی خاطر انہوں نے شاعری کی۔ ایک شعر میں کہتے ہیں
حیراں نہ ہو شعروں میں اگر جان نہیں ہے
یہ شوق ہے میرا مری پہچان نہیں ہے
ان کی شاعری کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہنا پڑتا ہے کہ صرف شوق شوق میں تین شعری مجموعے اور دو منفرد لہجے کے مراثی وجود میں آگئے اگر طالب جوہری شعر و سخن کی آبیاری پر زیادہ وقت صرف کرتے تو پتہ نہیں کتنے شعری مجموعات کی تخلیق ہو جاتی۔ طالب جوہری کے یہاں محبت کے جذبات کا بیان خوب ہے لیکن وہ پاکیزگی کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اس محبت میں الہٰیاتی عنصر پایا جاتا ہے۔ ان کے یہاں محبت کا جذبہ نہ سطحی ہے نہ اس میں ہوس ناکی ہے۔ بلکہ ان کے یہاں جذبہ محبت ایک معراج کی منزل پر نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری محبت کی آبیاری کرتی نظر آتی ہے۔ طالب جوہری کا شعری آہنگ روایت میں جدت لئے ہوئے ہے۔
بے مروت جنگلوں سے مور ہجرت کرگیا
مورنی کو اب ہوا احساس تنہائی تو کیا
.....
خدا حافظ اب اچھے دن گزارو اپنے کنبہ میں
اور اپنی زندگی کی ہر پریشانی مجھے دے دو
.....
چاند تک اڑ کر پہنچنے کا نہیں امکان جا
اے چکوری اپنے گھر والوں کا کہنا، مان جا
.....
جاگتا رہتا ہوں طالب میں شب مہتاب میں
اور میری گود میں سر رکھ کے سوجاتی ہے نیند
.....
طالب ان کو پانا تو دشوار نہ تھا
اندیشہ تھا خود اپنے کھو جانے کا
.....
گاؤں کے اک چھوٹے سے گھر میں کچھ لمحے مہتاب رہا
لیکن اس کی یاد کا پودا برسوں تک شاداب رہا
.....
بچھڑے تھے تو ساکت پلکیں سوکھے پیڑ کی شاخیں تھیں
اس سے بچھڑ کر دور چلے تو برسوں تک سیلاب رہا
Published: undefined
طالب جوہری انسان کے نبض شناس ہیں۔ اس کی نفسیات پر ان کی گہری نظر ہے۔ انسان کی جبلت اور نفع و نقصان کی اس کی سوچ کو طالب جوہری نے کتنی جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے اس شعر سے پوری فطرت بشری کھل کر سامنے آگئی ہے۔
حدود سود و زیاں سے آگے قدم نکلتا نہیں کسی کا
جہاں نے لیں کروٹیں ہزاروں مزاج بدلا نہ آدمی کا
.....
وہ دنیا کا نوحہ بھی پڑھتے ہیں اور صحت مند سماج کی تشکیل کےخواہاں بھی ہیں۔
طالب کس وحشی دنیا میں ڈھونڈتے ہوں انسانوں کو
اب وہ سانچے ٹوٹ چکے ہیں جن سانچوں نے ڈھالے لوگ
.....
جب زیاں پر چل رہا ہو کاروبار زندگی
بھوک آدم خور قوموں سے گزارش کیا کرے
.....
جس مٹکے سے پیاس بجھائی
اس میں مٹی گھول رہے ہو
.....
صبح سویرے شبنم چاٹنے والے پھول
دیکھ لیا خمیازہ پیاس بجھانے کا
.....
دشمنوں کی تنگ ظرفی ناپنے کے واسطے
ہم شکستوں پر شکستیں عمر بھر کھائے گئے
Published: undefined
طالب جوہری نے مراثی بھی نظم کئے ہیں لیکن ان کے مراثی کا رنگ و آہنگ اور زبان و بیان دیگر جدید مرثیہ گویوں سے یکسر جدا گانہ ہے۔ ان کا فلسفہ مرثیہ بھی الگ ہے۔ ان کے پہلے مرثیہ وجودِ باری تعالیٰ کے دو بند دیکھئے۔
مفہوم کی بہار معانی کے شاخسار
الفاظ کی جبال کنایوں کے آبشار
زورِ بیاں کے دشت۔ زباں آوری کی غار
اَفکار کی نبرد صَنائع کی کارزار
دنیائے شعریت ہے مُسدّس میں کیا نہیں
وہ اصطلاحِ فن میں مگر مرثیہ نہیں
.....
گو زیرِ بحث آئیں علومِ معاشرت
لیکن اُصولِ دیں سے ہو اُن کی مفاہمت
اُسلوبِ پیشکش میں رہے طرزِ مرثیت
چھائی رہے مزاجِ سخن پر حسینیتؑ
دین و ادب کے بیچ کی سَرحد ہے دوستو
یہ درس گاہِ فکرِ محمدؐ ہے دوستو
Published: undefined
'ہدایت' کے عنوان سے ایک مرثیہ میں طالب جوہری نے جو زبان، محاورات اور تراکیب استعمال کی ہیں وہ ان سے پہلے کسی نے استعمال نہیں کیں۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ وہ اپنے طرز کے موجود بھی ہیں اور خاتم بھی۔
یہ ارض و سماوات کی ویران حویلی
انساں اسی ویران حویلی کی چنبیلی
انسان کہ جس کا نہ کوئی یار نہ بیلی
بوجھے نہ فرشتے بھی وہ دشوار پہیلی
اسما و معنی کے گہر رول رہا تھا
آفاق تھے خاموش بشر بول رہا تھا
.....
پیدا ہوئے تہذیب کی راہوں میں جو کھانچے
توڑے گئے آبا کی روایات کے سانچے
بوئے گئے اجسام، اگائے گئے ڈھانچے
مارے گئے تہذیب کے چہرے پہ طمانچے
دنیا میں جو یہ معرکہِ نسل و زباں ہے
تہذیب کے چہرے پہ طمانچوں کا نشاں ہے
.....
پھر گلشنِ اسلام میں ہونے لگا پت جھڑ
غنچوں کےشبستانوں میں چلنے لگا جھکڑ
بستی کو شریعت کی بنایا گیا بیہڑ
تاریخِ فقاہت میں اٹھے لال بجھکڑ
قانون کی گاڑی کو غلط کھینچنے والے
قرآن پہ تنسیخ کا خط کھینچنے والے
Published: undefined
طالب جوہری کے شعری محاسن پر شمیم روش نے 'شعری افق۔علامہ طالب جوہری' کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔ ان کی شعری خدمات پر ایک ایم فل ہوا ہے۔ ان کی شاعری اور ان کی شخصیت کی عظمت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس پر تحقیق کی جائے۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت کی تہیں کھنگالی جائیں۔ طالب جوہری نام کا یہ چراغ 21 جون 2020 کو کراچی میں گل ہو گیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined