نئی دہلی: مشاعرہ کا آغاز روایتی انداز کے مطابق مہمانان خصوصی وزیر برائے خوراک و رسد عمران حسین، مشہور شاعر گلزار دہلوی، سکریٹری اردو اکادمی ایس ایم علی اور معروف ہندی کوی پروفیسر سوم ٹھاکر کے ہاتھوں شمع روشن کر کے ہوا۔ اس موقع پر اردو اکادمی کے سکریٹری ایس ایم علی نے سبھی مہمانان خصوصی کا پھولوں کا گلدستہ پیش کر کے استقبال کیا۔
Published: undefined
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبئہ اردو کے صدر پروفیسر شہپر رسول نے کہا یہ مشاعرہ شہدا ئے وطن کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ہر سال اردو اکادمی کے زیر اہتمام یہ مشاعرہ منعقد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پرعآپ لیڈرآتشی مارلینا نے کہا اردو ایک زبان ہی نہیں ایک تہذیب ہے، اردو زندگی جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے اور اس کی مثال ہماری گنگا جمنی تہذیب ہے۔ لیکن آج کچھ سیاسی لوگ سیاسی مفاد کے لئے گنگا جمنی تہذیب ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم اردو زبان کے ذریعے گنگا جمنی تہذیب کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ممبر ساہتیہ کلاپریشد منیش پانڈے نے کہا آج کی مرکزی حکومت لوگوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کر رہی ہے، انہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے ایک شعر پڑھا۔
تمہاری عید میں مناﺅں تو یہ ڈر جائیں
تم میری ہولی میں آﺅ تو یہ ڈر جائیں،
آﺅ ہم جیت لیں نفرت کو محبت سے اے دوست
اور جو ڈرتے ہیں محبت سے وہ اپنے گھر جائیں
وزیر برائے خوراک ورسد عمران حسین نے غالب انسٹی ٹیوٹ میں اردو اکادمی کے زیر اہتمام جشن آزادی کے موقع پر مشاعرہ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ اردو کے فروغ میں ہماری سرکار نے سب سے زیادہ تعاون کیا ہے۔ اانہوں نے یہ بھی کہا کہ اردو ترقی اور فروغ کے لئے گزشتہ 20 سالوں میں ایسا کام کسی بھی سرکار نے نہیں کیا۔ جیسا کہ ہماری سرکار نے پچھلے تین سالوں میں کر کے دکھایا ہے۔ دہلی سرکار اردو کے فروغ کے لئے کام کررہی ہے۔
Published: undefined
عمران حسین نے کہا کہ ہماری سرکار مستقبل میں اردو کے فروغ کے لئے ہر ممکن مدد کرے گی۔ انہوں نے مشاعرہ میں شامل سبھی شعرائے کرام کو مبارکباد پیش کی۔اس موقع پر دہلی کے مختلف شعرائے کرام نے تازہ دم آواز، نئے اسلوب، منفرد انداز بیاں سے اس محفل کو روشن کیا جس میں گلزر دہلوی، وسیم بریلوی، حق کانپوری، خالد محمود، جوہر کانپوری، شکیل عظمی، حسن کاظمی، اچانک مؤی، خورشید حیدر، درد دہلوی، حامد اقبال صدیقی، الفت بٹالوی، اقبال ا شہر، مصدق اعظمی، الطاف ضیاء، اشوک پنکج، ذاکر حسین ذاکر، انجم رہبر، ثبیقہ عباس، شبینہ ادیب، صبابلرامپوری شعراء حضرات شامل تھے۔ مشاعرے کی صدارت ہندی کے مشہور کوی پروفیسر سوم ٹھاکر نے کی اور نظامت کے فرائض ابرار کاشف نے انجام دئے۔
اس موقع عآپ رکن اسبملی امانت اللہ خان،عآپ کارکن آتشی مارلینا جشن نو بہار ٹرسٹ کی بانی کامنا پرساد، سیلم پور رکن اسمبلی حاجی اشراق خان، اوکھلا کے کونسلر واجد و دیگر حضرات شامل تھے۔ اس کے علاوہ ادب سے محبت اور دلچسپی رکھنے والے سیکڑوں کی تعداد میں لوگ حاضر ہوئے اور داد سخن دیتے ہوئے شعرائے کرام کی حوصلہ افزائی کی۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے چند منتخب اشعار درج ذیل ہیں...
درد دہلوی:
دکھاوے کی عبادت کررہا ہے
خدا سے بھی سیاست کررہاہے
---
وہ ادب کے ساتھ دل لگی کرنے لگا
ٓآتاجاتا کچھ نہیں ہے شاعری کرنے لگا
خورشید حید ر:
تم تو آتے ہو روز یاد ہمیں
کیا تمہیں ہم بھی یاد آتے ہیں
---
چہرہ ،لباس ،نہ گفتار دیکھ کر
میں دوستی کرتا ہو ں کردار دیکھ کر
الفت بٹالوی:
بس محبت کی بات کرتے ہیں
خوبصورت حیات کرتے ہیں
آپ روشن کریں چراغوں کو
ہم تو ہواﺅں سے بات کرتے ہیں
کاغذی پھول بیچنے والے
ہم سے خوشبو کی بات کرتے ہیں
صبا بلرام پوری:
ہر شخص کا نصیب منور نہ ہوسکا
ہندوستان سب کامقدر نہ ہوسکا
آج پھراکبر اعظم کو جلال آیا ہے
پھر اک حسن چنا جائے گا دیوار میں
حامد صدیقی:
تو کیا کشش بھی مری لے گئے اپنے ساتھ
کوئی تودیکھتا چہرہ تمہارے بعد
میں ترا نام اتنی بار لکھو ں
کہ اپنا نام بھول جاﺅ ں
اچانک موی:
جو عقد مرا دہلی سے ہوجاتا
تو جہیز میں مجھے اردو زبان ملتی
کسی ایڈیٹ ادارہ کے ٹیچر ہوگئے ہوتے
توہماری چھت کے کو©ے کبوتر ہوگئے ہوتے
اشوک پنکج :
ستم مرے دل پہ اٹھائے ہوئے ہیں
وہ پھر آج محفل میں آئے ہوئے ہیں
سبیکا عباس:
یہ مرے نور کو مانگا ہوا سمجھتے ہیں
ہم تو جگنو ہیں ہم کو چاند بنادیا
الطاف ضیائ:
ٹوٹ جائیں جو مرے خواب تو کیا کیا ہوگا
روٹھ جائیں مرے احباب تو کیا کیا ہوگا
آشنا ہیں ابھی تہذیب سے ہم لوگ اگر
بھول جائیں ادب و آداب تو کیا کیا ہوگا
(محمد تسلیم)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined