اردو کے ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے سانحہ ارتحال پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے شدید رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو میں طنز و مزاح کی روایت بہت ثروت مند نہیں رہی موجودہ دور میں چند نام ہی ہمارے سامنے آتے ہیں جن میں مجتبیٰ حسین کا نام سر فہرست آتا ہے۔
Published: undefined
انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے تعلیمی سلسلہ مکمل کیا ۔ ابتدائی دنوں سے ہی ان کی رغبت طنزو مزاح میں غیر معمولی تھی۔ اپنے اسی فطری ذوق کی تسکین کی خاطر وہ صحافت سے وابستہ ہوئے اور وہیں سے ان کے فن کو جلا اور شخصیت کو مقبولیت ملی۔ ان کی تحریروں میں شگفتگی کے ساتھ زندگی کے پیچیدہ مسائل سے رو برو ہونے جذبہ ہمیں متاثر کرتا ہے۔
Published: undefined
ان کے انتقال کی وجہ سے اردو ادب میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی تلافی بہت دشوار ہے۔ خدا ان کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر عطا کرے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضا حیدر نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجتبیٰ حسین نے ایک فعال اور بھرپو رزندگی گزاری یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال پر پورا اردو معاشرہ سوگوار ہے۔ آپ صحافت اور محکمہ اطلاعات سے وابستہ رہے اور ہر عہدے کی ذمہ داری اس طرح نبھائی جیسے وہ اسی کے لیے ہی بنے تھے لیکن ان کی شناخت ان کی شگفتہ تحریروں سے قائم ہوئی۔ میرے خیال میں وہ اردو کے پہلے ادیب ہیں جن کو بحیثیت مزاح نگار پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا۔
Published: undefined
غالب انسٹی ٹیوٹ نے بھی ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں غالب اوارڈ پیش کیا تھا۔ ان کی تحریروں میں فنی سلیقے کے ساتھ زندگی کی اعلیٰ قدروں کا پاس ولحاظ ہمیں سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ میں اپنی جانب سے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ٹرسٹیز اور پورے عملے کی جانب سے ان کے پسماندگار اور پورے ادبی معاشرے کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں ۔ اس مشکل وقت میں ادارہ ان کے پسماندگان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز