مہاراشٹر میں سیاسی جنگ ایک اہم سوال پر مرکوز ہے۔ کیا عوامی فلاح کے منصوبے عوام کے عدم اتفاق کو ختم کر سکتے ہیں؟ شرد پوار کا ماننا ہے کہ ووٹرس کو لبھانے کے لیے مہایوتی حکومت نے جو کچھ بھی کیا ہے، وہ مزید ایک مدت کار حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ شرد پوار نے اپنا یہ نظریہ ’فرنٹ لائن‘ رسالہ کے لیے امئے تروڈکر کو دیے گئے انٹرویو میں بیان کیا ہے۔ شرد پوار نے اس انٹرویو کے دوران کئی امور پر کھل کر اپنی بات رکھی۔ یہاں ’قومی آواز‘ کے قارئین کے لیے پیش ہیں اس انٹرویو کے اہم اقتباسات...
Published: undefined
آپ اسمبلی انتخاب کی مہم کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
لوک سبھا انتخاب میں نریندر مودی مکمل اکثریت کا ہدف لے کر چل رہے تھے۔ آئین میں ترمیم کے ایشو نے انھیں نقصان پہنچایا۔ خاص طور سے کمزور طبقات نے اس نظریہ کو پوری طرح خارج کر دیا۔ دوسرے، اقلیتوں کے تئیں مودی کے نظریہ کے سبب ایک الگ پالیسی ابھری۔ انتخاب کے بعد ایوان میں مکمل اکثریت حاصل کرنے کے لیے مودی کے پاس نتیش کمار اور چندرابابو نائیڈو پر منحصر رہنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں تھا۔ یہ اشارہ تھا کہ لوگ مودی اور ان کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں۔ مہاراشٹر میں بھی اپوزیشن نے زیادہ سیٹیں جیتیں۔ (اسمبلی) انتخاب اسی پس منظر میں ہو رہے ہیں۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ لوک سبھا کا وہ رجحان اب بھی جاری رہے گا؟
ابھی نہیں کہہ سکتا۔ اس انتخاب کے بعد حکومت نے اپنی پوری مشینری کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا اور ’لاڈکی بہن‘ منصوبہ جیسے کئی عوام کو لبھانے والے فیصلے لیے۔ پیسے دے کر ماحول بدلنے کی کوشش کی۔ اس کا تھوڑا بہت اثر ہو سکتا ہے۔ لیکن میں آپ کو ایک الگ کہانی بتاتا ہوں۔ حال ہی میں اپنے سفر کے دوران میں نے کھیتوں میں کام کر رہی 20-15 خواتین کو دیکھا۔ میں نے کار روکی اور ان سے بات کی۔ پوچھا کہ ’لاڈکی بہن‘ منصوبہ کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے۔ کیا انھیں پیسے ملے؟ کیا وہ اس سے خوش ہیں؟ سبھی خواتین نے کہا کہ انھیں پیسے ملے، لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ایک ہاتھ سے پیسے دیے اور دوسرے سے واپس لے لیے۔ انھوں نے سمجھایا کہ مہنگائی ہی اتنی ہے۔ یہی عام جذبہ ہے۔ کسانوں اور بے روزگار نوجوانوں کو بھی پیسے دیے جا رہے ہیں۔ حکومت الگ الگ طبقات کو الگ الگ طریقے سے لبھا رہی ہے۔
ان منصوبوں کا اثر نتیجہ خیز طور پر مہایوتی کے حق میں رہے گا یا اپوزیشن کے پاس اب بھی لڑنے کا موقع ہے؟
میرا ماننا ہے کہ منصوبوں کا کچھ تو اثر پڑا ہے، لیکن عوام حکومت میں تبدیلی چاہتی ہے اور اگر یہ جذبہ بنا رہا تو ہمیں واضح اکثریت ملے گی۔ دوسری بات، کانگریس، ادھو ٹھاکرے اور این سی پی (ایس پی) کا ہمارا اتحاد کچھ انتخابی حلقوں کو چھوڑ کر ہر جگہ اچھا کام کر رہا ہے۔
مہا وکاس اگھاڑی کا وزیر اعلیٰ کون ہوگا، اس پر کافی تذکرہ ہو رہا ہے...
ہم نے ابھی نام طے نہیں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ہمیں اکثریت ملتی ہے تو ساتھیوں میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹی یہ طے کرے گی۔
مراٹھا ریزرویشن کارکن منوج جرانگے پاٹل نے انتخاب نہیں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
پاٹل نے سمجھداری بھرا فیصلہ لیا ہے۔ ان کے انتخاب نہ لڑنے سے اپوزیشن کو یقیناً ہی فائدہ ہوگا۔ ساتھ ہی انھوں نے حال ہی میں مراٹھا ریزرویشن کے مطالبہ کے ساتھ ساتھ مسلم اور دھنگر ریزرویشن کی حمایت میں بھی بیان جاری کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انھوں نے اپنا دائرہ بڑھایا ہے اور اپنی بنیاد کی توسیع کی ہے۔ اس سے یہ جذبہ بھی بنا ہے کہ وہ او بی سی کے خلاف نہیں ہیں۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ زمینی سطح پر غیر مراٹھا پولرائزیشن نہیں ہو رہا ہے؟
لگ تو ایسا ہی رہا ہے۔
ہریانہ میں بی جے پی کی پالیسی کا یہ اہم حصہ تھا۔ وہاں وہ جاٹوں کے خلاف غیر جاٹوں کو متحد کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ مہاراشٹر میں ایسا نہیں ہو رہا؟
میں ہریانہ گیا ہوں۔ وہاں کانگریس کے بہت سے امیدوار تھے اور کئی آزاد اور باغی بھی تھے۔ شروع میں ہمیں لگا کہ مہاراشٹر میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن ان میں سے بیشتر نے اپنے نام واپس لے لیے ہیں۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایم این ایس اور وی بی اے جیسی چھوٹی پارٹیاں ایم وی اے کو نقصان پہنچانے والی ہیں؟
پانچ سال پہلے وی بی اے کی حالت الگ تھی۔ اس بار ان کا کوئی خاص اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ آج بھی ای ڈی اور سی بی آئی جیسی ایجنسیوں کا استعمال ایم وی اے کے خلاف کیا جا رہا ہے؟
چھگن بھجبل کے بیان سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے (بھجبل نے کہا ہے کہ انھیں ای ڈی معاملوں کے سبب شرد پوار کی پارٹی چھوڑنی پڑی)۔ ہم سبھی نے اسے دیکھا ہے۔ ہمارے خلاف دولت اور ایجنسیوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دے سکتا ہوں۔ میری بیٹی سپریا سولے چوتھی بار رکن پارلیمنٹ بنی ہیں۔ جب بھی وہ حکومت پر حملہ کرتی ہیں، ان کے شوہر کو انکم ٹیکس نوٹس مل جاتا ہے۔ میرے بھائی کی بیٹیوں پر چھاپے پڑے ہیں۔ مرکزی حکومت نے میرے خاندان کے خلاف بھی ایجنسیوں کا غلط استعمال کیا ہے۔ یہ ایسا انتخاب ہے جس میں ہم اقتدار اور سرکاری ایجنسیوں کا پوری طرح غلط استعمال ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ایسا ہم نے گزشتہ انتخابات میں کبھی نہیں دیکھا۔
کپاس اور سویابین کسانوں کی بات کریں تو آپ مرکزی حکومت کی پالیسیوں کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
کپاس اور سویابین کسان سنگین مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ قیمتیں گر گئی ہیں۔ زراعت کی لاگت بھی نہیں نکل پا رہی۔ اس لیے ہی کسان بے حد ناخوش ہیں۔ حکومت کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پیسے مل جانے سے یہ کسان مطمئن ہو گئے ہیں۔ گنے اور اتھنال کے لیے نیشنل فیڈریشن آف کوآپریٹو شگر فیکٹریز نے ایم ایس پی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھیں پورا نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یقینی آمدنی والی فصل کے معاملے میں بھی اسی مسئلہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مجموعی طور پر چاہے کپاس ہو یا سویابین، یا پھر گنّا، ان کے کسانوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
آپ مہم کے دوران بی جے پی لیڈروں کے ذریعہ اٹھائے گئے ’ووٹ جہاد‘ کے ایشو کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
یہ برسراقتدار پارٹی کے فرقہ پرستانہ نظریہ کا ثبوت ہے۔ گزشتہ انتخاب میں بی جے پی کے 5-4 لیڈران ایسے تھے جو آئین بدلنے کی بات کر رہے تھے۔ اس سے حکومت کی اصلی شبیہ ظاہر ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس حصولیابیوں کے نام پر دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس لیے فرقہ واریت ہی تنہا ایسی چیز ہے جس پر وہ بھروسہ کر رہے ہیں۔
اسمبلی انتخاب کے ممکنہ نتائج کے بارے میں کیا کہیں گے؟
میں نے ابھی ابھی انتخابی تشہیر شروع کی ہے۔ میں پوری کوشش کر رہا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ مقامات تک پہنچ سکوں۔ ابھی سیٹوں کی پیشین گوئی تو نہیں کر سکتا، لیکن مجھے یقین ہے کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ میں تو بس انتخابی تشہیر پر اور ریاست بھر میں لوگوں تک پہنچنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہوں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: سوشل میڈیا
تصویر: پریس ریلیز