وزیر اعظم نریندر مودی کے انتخابی حلقہ وارانسی میں گزشتہ دنوں ایک بھیانک حادثہ ہوا۔ زیر تعمیر پل گرنے کی وجہ سے دو درجن سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئی، کئی زخمی ہو گئے۔ کہا جا رہا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے لیکن مرکز اور ریاست کی بی جے پی حکومتیں اس حقیقت کو چھپا رہی ہیں۔ اس حادثہ کے بعد سے ہی اپنی چال میں مست رہنے والا وارانسی شہر خوف کے سائے میں جی رہا ہے۔ ترقی کے نام پر ہو رہی اندھا دھند تعمیرات اور بدعنوانی کے کھمبے پر فلائی اوور کی وجہ سے کب کون سا حادثہ ہو جائے کسی کو پتہ نہیں۔
یاد کیجیے 2014 میں انتخابات جیتنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے کاشی کے نام سے معروف قدیم شہر کو کیوٹو بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ چار سال گزرنے کو ہے، کاشی کیوٹو تو نہیں بن پایا لیکن اس کی اپنی پہچان ضرور معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ جس ماں گنگا کے بلانے پر مودی وارانسی گئے تھے اس کا پانی پہلے جتنا گدلا ہے۔ ہاں، گنگا کی صفائی کے نام پر نوکرشاہوں اور لیڈروں نے سینکڑوں کروڑ ضرور ہضم کر لیے۔
وارانسی کے رہنے والے معروف ناول نگار کاشی ناتھ سنگھ مانتے ہیں کہ یہ انسان کے ذریعہ تیار کردہ حادثہ تھا۔ وارانسی پر ہی مبنی اپنے ناول ’کاشی کا اسّی‘ کی وجہ سے دنیا بھر میں پہچانے گئے 81 سال کے مصنف کا ماننا ہے کہ ہر شہر کی اپنی پہچان ہوتی ہے۔ ہر شہر کی اپنی رفتار، اپنی لے ہوتی ہے۔ اگر اس سے چھیڑخانی کی جائے گی تو اس میں ہلچل پیدا ہوگی اور اس طرح سے حادثے ہوتے رہیں گے۔ کاشی ناتھ سنگھ یہ بھی مانتے ہیں کہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بنارس کا مجموعی کردار تیزی کے ساتھ بدلا ہے۔ بنارس کی تہذیب، ثقافت، ترقی اور سیاست کے ایشوز پر ان سے بات کی ہمارے نامہ نگار وشو دیپک نے۔
Published: undefined
بنارس میں ہوئے پل حادثہ کو نقلچی ترقی کا نتیجہ بتایا جا رہا ہے۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟
دیکھیے، بنارس کا کردار بدل رہا ہے۔ اب بنارس ویسا نہیں رہا جیسا کبھی تھا۔ یا یہ کہیے کہ بنارس کو ویسا نہیں رہنے دیا جا رہا ہے جیسا وہ رہنا چاہتا ہے یا رہتا آیا ہے۔
بنارس کو گنگا، گائے اور گپّ کا شہر کہا جاتا ہے لیکن اب اس کی یہ شناخت چھینی جا رہی ہے۔ یہ نگر ہے لیکن اسے مہانگر بنانے کی تیاری چل رہی ہے۔ مہانگر بننے کی کوئی خواہش نہیں ہے بنارس کی۔ یہ کوشش اس کے مزاج سے میل نہیں کھاتی۔ یہ دھیرے دھیرے چلنے والا شہر ہے۔ یہاں کے لوگ اطمینان سے چائے کی دکانوں پر چائے پیتے ہوئے، دہی-جلیبی کھاتے ہوئے، پان کی گمٹیوں پر غپّ کرتے ہیں۔ اس میں دنیا بھر کی باتیں شامل ہوتی ہیں۔ سیاست سے لے کر روحانیت تک اور ادب سے لے کر مذہبی صحیفوں تک۔ ہر ایشو پر، ہر نظریہ سے متعلق یہاں بات ہوتی ہے۔ کسی طرح کی کوئی جلدبازی نہیں تھی وارانسی کے مزاج میں لیکن اب یہاں ایک ہڑبڑی تھوپی جا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے حادثہ اسی کا نتیجہ ہیں۔ بنارس کے مزاج سے اس طرح کی ترقی میل نہیں کھاتی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کاشی کو کیوٹو بنا دیں گے...
یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر آپ سابرمتی کی نگاہ سے گنگا کو دیکھیں گے تو کیا یہ مناسب ہے؟ کیا آپ کاشی کی نگاہ سے کیوٹو کو دیکھ سکتے ہیں؟ نہیں۔ تو پھر کیوٹو کی نگاہ سے کاشی کو کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ کیوٹو، کیوٹو ہے اور کاشی، کاشی ہے۔ چھوٹے چھوٹے مندر، گلیاں اور گنگا کاشی کی پہچان تھے۔ دنیا بھر سے سیاح کاشی کی یہی شکل دیکھنے آتے تھے۔ قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ بقائے باہمی اس شہر کی خاصیت تھی لیکن اب ترقی کے نام پر ان مندروں کو گرا دیا گیا ہے۔ سنا ہے کہ سادھو-سنیاسیوں اور مہنتوں نے اس کے جواب میں ’مندر بچاؤ مہم‘ بھی شروع کی ہے۔ اس طرح کی تحریک کے پیچھے ان کے نجی مفادات ہو سکتے ہیں لیکن اس سے شہر کی پرانی شناخت کو بچایا جا سکتا ہے جو کہ ختم ہو رہی ہے۔ آخر لوگ بنارس کو فلائی اوور، شاپنگ مال کے لیے جانیں گے یا پھر اس کی قدیم تاریخ کے لیے۔
آپ نے بنارس میں اور کیا تبدیلی محسوس کی؟
پہلے لوگ گھاٹوں پر جاتے تھے امن و سکون کے لیے لیکن اب گھاٹوں پر بھی سکون نظر نہیں آتا۔ دن بھر وہاں لاؤڈ اسپیکر پر بھجن چلتے رہتے ہیں۔ شام کو آرتی کے نام پر بھیانک شور شرابہ ہوتا ہے۔ پہلے تو میں بھی گھاٹوں پر باضابطہ طور پر جاتا تھا لیکن اب نہیں جا پاتا۔ صحت بھی ایک بڑی وجہ ہے لیکن نمائش بھی اب پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ مذہب، روحانیت کا کاروبار کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ دراصل جب سیاست کے لیے مذہب کا استعمال ہوتا ہے تب یہی ہوتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے بعد تو یہ تبدیلی اور بھی تیز ہو گئی ہے۔
کیا آپ مانتے ہیں کہ آج کے دور کی سیاست نے بنارس کے بقائے باہمی والی ثقافت کو متاثر کیا ہے؟
یقینی طور پر ایسا ہوا ہے۔ ایک طرح کی بے چینی نے بنارس کو گھیر رکھا ہے۔ مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس شہر کا مزاج تیزی سے بدلا ہے۔ اگر آپ کبھی بنارس آئے ہوں گے تو آپ کو پتہ ہوگا کہ یہاں چائے کی دکانوں پر زبردست بحث و مباحثہ ہوتے تھے۔ کئی بار تو گالی گلوچ کی نوبت آ جاتی تھی لیکن اس کے پیچھے کوئی عدم برداشت نہیں تھی۔ بنارس میں کوئی گالیوں کا برا مانتا بھی نہیں۔ اگلی صبح پھر سب اسی طرح سے بحث کرتے تھے۔ بنارس بہت جمہوری شہر رہا ہے لیکن اب یہ سب بدل رہا ہے۔ بحث و مباحثہ میں یہاں غیر متفق آوازوں کو کبھی دبایا نہیں جاتا تھا بلکہ انھیں سنا جاتا تھا۔ اگر دو لوگوں کے درمیان بحث ہو رہی ہو تو دونوں فریق سے دو دو یا تین تین لوگ آ جاتے تھے بحث کرنے کے لیے۔ یہ اب بھی ہوتا ہے لیکن اس کا زوال ہو رہا ہے۔
آج کے سیاسی ماحول میں اکثر مخالف آواز کو دبانے کے لیے ’دہشت گردی‘ لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ اس معاملے میں کیا سوچتے ہیں؟
دہشت گردی تو بس ایک لبادہ ہے اصل چہرہ چھپانے کے لیے۔ آج بہت آسانی سے لوگ کسی کو دہشت گرد کہہ دیتے ہیں۔ اگر کوئی آپ کی بات سے متفق نہیں ہے تو اسے دہشت گرد کہہ دیجیے پھر اس پر ٹوٹ پڑیے چاروں طرف سے۔ غدار وطن یا محب وطن ثابت کرنا اتنا آسان کبھی نہیں رہا جتنا کہ آج ہو گیا ہے۔ پہلے اگر کوئی خود کو محب وطن کہتا تھا تو اسے یہ ثابت کرنا ہوتا تھا کہ اس نے ملک کے لیے کیا کیا ہے۔ بدقسمتی سے اب ایسا نہیں رہا۔ سب کچھ سستا ہو گیا ہے۔ ہر طرف پروپیگنڈہ اور تشہیر کا ہی بول بالا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز