انٹرویو

ہم نے جو سوالات اٹھائے ہیں انھیں نظر انداز کرنا غلط: جسٹس چیلامیشور

جسٹس جے. چیلامیشور کا کہنا ہے کہ اپنی مدت کار میں انھوں نے صرف وہی کیا جو ملک اور ملک کی جمہوریت کے لیے انھیں مناسب معلوم ہوا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا سبکدوش جج جسٹس جے. چیلامیشور

ملک کی راجدھانی دہلی، جو پاور سنٹر ہے، وہاں سے وہ اپنا بوریا بستر سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کتابوں کی ریک خالی ہو رہی ہے۔ سامان کی پیکنگ ہو رہی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے دوسرے سب سے سینئر جج جسٹس جے. چیلامیشور، جو کہ دہلی میں گزشتہ سات سالوں سے ہیں، انھیں ملک کی راجدھانی سے کوئی محبت نہیں ہے۔ وہ واپس آندھرا پردیش میں مقیم ہونے کی تیاری میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ تو انھیں پاور چاہیے اور نہ ہی کوئی کام۔ لہٰذا دہلی میں رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیونکہ دہلی صرف انہی دو چیزوں کے لیے ضروری ہے... پاور اور پوزیشن۔ انھوں نے یہ اعلان کیا کہ ریٹائر ہونے کے بعد نہ تو مرکزی حکومت سے اور نہ ہی کسی ریاستی حکومت سے کوئی عہدہ چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ ابھی وہ سب سے پہلے تروپتی جائیں گے اور پھر وہاں سے ’اپنے لوگوں کے درمیان‘۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں اپنی مدت کار کے دوران انھوں نے وہی کیا جو ملک اور جمہوریت کے لیے بہتر تھا۔ انھیں سکون اس بات کا ہے کہ آزاد عدلیہ کے لیے انھوں نے صحیح اور ضروری سوال اٹھائے جس سے ملک گیر بحث شروع ہوئی۔ ’قومی آواز‘ کے لیے جسٹس جے. چیلامیشور کے گھر پر ان کا ایکسکلوزیو انٹرویو بھاشا سنگھ نے لیا۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات...

Published: 19 May 2018, 3:57 AM IST

آپ نے سپریم کورٹ ہی نہیں ملک کی عدلیہ کی تاریخ میں اپنا نام درج کرایا۔ 12 جنوری کو آپ نے جسٹس گوگوئی، جسٹس لوکُر اور جسٹس کورین جوسف کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی اور یہ اعلان کیا کہ عدالت کی آزادی خطرے میں ہے۔ کیا کچھ بدلا اس کے بعد؟

ہمیں جو کام کرنا تھا وہ ہم نے کیا۔ اب یہ آنے والی نسل طے کرے گی کہ جو ہم نے کیا وہ صحیح تھا یا غلط۔ آج کا دن (18 مئی 2018) بھی میرے لیے بہت اہم ہے اور آج میں یہ دہرانا چاہتا ہوں کہ ہم نے ملک میں جمہوریت کی صورت حال، عدلیہ کی حالت سے منسلک بے حد ضروری سوال اٹھائے تھے۔ انھیں نظر انداز کرنا سراسر غلط ہوتا۔ عدلیہ کی آزادی جمہوریت کے لیے لازمی شرط ہے اور یہ خطرے میں ہے۔ ہم نے واضح طور پر کہا کہ سپریم کورٹ کا منیجمنٹ صحیح طریقے سے نہیں چل رہا ہے۔ میں نے کبھی دباؤ میں کوئی کام نہیں کیا، جو مناسب لگا اس کے حق میں کھڑا ہوا چاہے اس کے لیے جو بھی قیمت ادا کرنی پڑی ہو۔

آپ کی تاریخی پریس کانفرنس کے بعد سپریم کورٹ کے طریقہ کار میں کوئی اصلاح ہوئی؟

کیا تبدیلی ہوئی یا کیا اصلاح ہوئی ان سب کا جائزہ ابھی نہیں لیا جا سکتا۔ آنے والا وقت اور آنے والی نسل بتائے گی کہ ہم صحیح تھے یا غلط۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ جو بات صحیح لگی وہ کہی۔ ہم نے جو سوال اٹھائے اس نے ایک بہت بڑی بحث کو جنم دیا، اور جمہرویت کے لیے بحث کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مخلص آوازوں کا احترام کیا جانا چاہیے اور انھیں جگہ ملنی چاہیے۔

آپ طویل مدت سے سپریم کورٹ کے طریقہ کار کی خامیوں پر آواز اٹھا رہے تھے...

ہاں، میں نے بہت پہلے ستمبر 2016 میں کالجیم کی میٹنگ میں جانا بند کر دیا تھا۔ ایسا کرنے کے پیچھے میرے پاس کچھ خاص اسباب تھے جنھیں میں نے برسرعام نہیں کیا۔ میں ایسا یہ یقینی کرنے کے لیے کہہ رہا ہوں کہ کچھ ایشوز اور مسائل کو لے کر میرا احتجاج تھا جنھیں میں نے کبھی چھپایا نہیں۔ میں نے اپنے خط بھی برسرعام نہیں کیے کیونکہ وہ کچھ لوگوں کے نجی دائرے میں تھے۔ جب تک مجھے میرے عقیدہ نے ملک کے بھلے کے لیے ایسا کرنے کو مجبور نہیں کیا۔ یہاں تک کہ پریس کانفرنس کے دن بھی ہم نے کسی شخص کا نام نہیں لیا اور نہ ہی کوئی نجی الزام لگائے۔ یہ پہلے سے سوچا ہوا تھا اور اس پر اچھی طرح سے گفتگو ہو چکی تھی۔ میں نے اس دن جو بھی کہا، اس پر میں اب بھی قائم ہوں۔ ہم نے بہت متوازن باتیں سامنے رکھیں۔ جو اطلاعات میرے یا ہمارے پاس تھیں، ان کی بنیاد پر ہم نے باتیں کیں۔ میں کئی چیزیں ظاہر نہیں کر رہا ہوں کیونکہ ہم اداروں کو بچانا چاہتے ہیں۔

آپ سبکدوش ہو چکے ہیں، اب جسٹس کے ایم جوسف کے معاملے میں کیا ہوگا؟

میں نے ہی سب سے پہلے اس ایشو کو اٹھایا تھا۔ میں نے اپنا نظریہ کھلے طور پر رکھ دیا ہے۔ میں نے 10 دن پہلے ہی کالجیم کو لکھا تھا تاکہ میری رائے سب کے سامنے ہو۔

فی الحال جمہوریت کی حالت کتنی سنگین ہے؟

جمہوریت میں خودکشی کی روش ہوتی ہے۔ سماج میں اختیار اور جمہوری ذمہ داری میں توازن بنانے کا شعور ہونا چاہیے۔ اس لیے ابھی کی حالت کافی سنگین ہے۔ اگر یہ سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے تو خطرہ ہو سکتا ہے۔ سوال توازن کا ہے۔

تو کیا وہ توازن بچا ہوا ہے یا ختم ہو چکا ہے؟

ہم نہیں جانتے۔ 60 سال پہلے لوگوں نے کہا کہ یہ ایک فعال انارکی ہے لیکن پھر بھی ہم نے سب کچھ سنبھال لیا، بغیر سڑک کی لڑائیوں کے۔ جمہوریت ابھی بھی کام کر رہی ہے۔ مسائل آئیں گے، برا اور اچھا دور بھی رہے گا۔

آپ کی خوشی کا لمحہ کون سا رہا؟

(ہنستے ہوئے) آج 11 بجے (جب میں سپریم کورٹ سے سبکدوش ہوا)، اب میں اپنی ذمہ داری سے آزاد ہوں۔ ذمہ داریاں آپ کو پریشان کرتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 19 May 2018, 3:57 AM IST