وشو دیپک: شرد جی! حال ہی میں گجرات انتخابات کے نتائج آئے ہیں جس میں چھٹی مرتبہ بی جے پی کی فتح ہوئی۔ آپ اس سلسلے میں کیا سوچتے ہیں؟
شرد یادو: بی جے پی نے صرف بڑے شہروں میں فتح حاصل کی ہے جن میں احمد آباد، سورت، وڈودرا اور راجکوٹ اہم ہیں۔ گجرات کے دیہی علاقوں میں تو بی جے پی کی شکست ہی ہوئی ہے۔ صرف دیہی علاقے ہی نہیں چھوٹے شہروں میں بھی بی جے پی کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ گجرات کے مینڈیٹ نے مستقبل میں ہونے والی سیاسی ہلچل کا اشارہ دے دیا ہے۔
کیا آپ مانتے ہیں کہ بہار کی طرح اپوزیشن طاقتوں کے اتحاد کے سبب ایسا ہو پایا؟ کیا اس نتیجہ سے مودی کی ناقابل تسخیر شبیہ کو دھچکا پہنچا ہے؟
یہ سبھی کو معلوم ہے کہ اگر اپوزیشن طاقتیں ایک ساتھ ہو جائیں تو پھر کسی کو بھی ہرایا جا سکتا ہے۔ ناقابل تسخیر کوئی بھی نہیں ہے پھر وہ چاہے مودی ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن میں کہوں گا کہ بہار کی طرح گجرات میں مہاگٹھ بندھن نہیں ہو پایا۔ ہماری سابقہ معاون پارٹی جنتا دل یو نے تو بی جے پی کے ساتھ ہی اتحاد کیا تھا۔
آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ ملک کو بی جے پی سے راحت ملنی چاہیے۔ بی جے پی برسراقتدار ہے تو اس سے آپ کو کیا پریشانی ہے؟
مودی کی قیادت میں بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ ہر سال دو کروڑ روزگار دیں گے۔ خصوصاً نوجوانوں کو روزگار اور بہتر زندگی کا خواب بڑھ چڑھ کر دکھایا گیا تھا۔ دو کروڑ کے حساسب سے پانچ سال میں دس کروڑ لوگوں کو روزگار ملنا چاہیے تھا، لیکن روزگار کا تو نام و نشان نہیں ہے۔ ہمارے یہاں کسانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے جس کے بارے میں مودی حکومت نے کہا تھا کہ طے قیمت کا دو گنا رقم منیمم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) کے طور پر دیں گے۔ کہاں ہے ڈیڑھ گنا ایم ایس پی دینے کا وعدہ؟نصف سے زیادہ ہندوستان تو انہی نوجوانوں اور کسانوں سے مل کر بنتا ہے۔ ظاہر ہے نصف سے زیادہ آبادی سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں مودی حکومت ناکام رہی ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ کالا دھن جو بیرون ممالک میں جمع ہے اسے لائیں گے اور ہر کسی کو دیں گے، لیکن اسے لانے کی جگہ ہندوستان میں ہی نوٹ بندی کر دی۔ عوام کے پاس جو تھا اسے بھی چھین لیا۔ یہی سب اسباب ہیں کہ میں مودی اور بی جے پی سے ملک کو راحت دلانا چاہتا ہوں۔
آپ پچھلے کافی وقت سے سماجی و ثقافتی محاذ پر ’ساجھا وراثت بچاؤ مہم‘ کے ذریعہ اپوزیشن پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا کام کر رہے ہیں۔ کیا یہ مہم آنے والے وقت میں آپ کی قیادت میں کسی سیاسی اتحاد کی شکل اختیار کرے گا؟
یہ صرف سماجی و ثقافتی محاذ کا کام نہیں ہے۔ یہ اتحاد کی راہ کھولنے والی مہم ہے۔ آنے والے وقت میں شروع ہونے والے جدوجہد کی یہ ایک طرح کی تیاری ہے۔ اس کی شکل کیا ہوگی، اس میں کون لوگ شامل ہوں گے اور اس کی قیادت کون کرے گا اس سے متعلق فی الحال کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔فی الحال میرا مقصد ہے بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنا۔ اگر یہ اقتدار میں بنے رہیں گے تو ملک کے سامنے بہت مشکلیں آنے والی ہیں۔ ہمارا آئین، ملک کی آزادی حاصل کرنے کے لیے دی گئی قربانیاں سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ یہ دن بھر ہندو-مسلمان کے درمیان تفریق پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا ملک تین ٹکڑوں میں پہلے ہی تقسیم ہو چکا ہے، کیا دنیا میں ایسا کوئی ملک آپ نے دیکھا ہے جہاں اس طرح کی تقسیم ہوئی ہو! کبھی یہ اسلام کے نام پر تقسیم کرتے ہیں تو کبھی ذات برادری کے نام پر تقسیم کرتے ہیں۔ خود ذات برادری کی سیاست کرتے ہیں لیکن الزام لگاتے ہیں دوسرے لوگوں پر۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ذات برادری ہمارے ملک کی سماجی سچائیاں ہیں۔ راہل گاندھی بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ مودی اور بی جے پی کی ساری باتیں جھوٹ کی بنیاد پر ٹکی ہوئی ہیں۔
آپ نے راہل گاندھی کا تذکرہ کیا۔ گجرات میں کانگریس کی سیٹوں میں تقریباً 100 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ کیا آپ مانتے ہیں کہ یہ راہل کی قیادت کی وجہ سے ممکن ہوا یا پھر گجرات بدلاؤ کے لیے تیار تھا۔ راہل کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو بھی کانگریس کو اتنی ہی سیٹیں ملتیں؟
گجرات میں 1985 کے بعد کانگریس نے پہلی مرتبہ اتنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ گجرات کے لوگ تبدیلی کے لیے تیار تھے، وہاں کے لوگ بی جے پی کے خلاف سڑکوں پر جدوجہد کر رہے تھے لیکن راہل نے اس جدوجہد کو ایک سیاسی چہرہ دیا۔ کانگریس کی کارکردگی کا سہرا یقینا کانگریس کی قیادت کے سر بندھنا چاہیے۔ گجرات میں کانگریس کی بہتر کارکردگی کے لیے راہل گاندھی کی تعریف کی جانی چاہیے کیونکہ انتخابی مہم کی قیادت تو وہی کر رہے تھے۔
راہل گاندھی کے صدر بننے کے ساتھ ہی کانگریس میں ایک طرح سے ’سونیا دور‘ کا خاتمہ ہو گیا۔ اب راہل گاندھی کو آنے والے وقت میں کانگریس سربراہ کے طور پر کن چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا؟
کہتے ہیں کہ تاریخ خود کو دوہراتا ہے۔ سونیا کے دور سے راہل کے وقت کا موازنہ کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس کی تاریخ بھی خود کو دوہرا رہی ہے۔ جب سونیا جی نے 1998 میں کانگریس کی ذمہ داری سنبھالی تھی تب بھی حالات کم و بیش ایسے ہی تھے۔ آج راہل کے سامنے وہی چیلنجز ہیں جو سونیا کے سامنے اُس وقت تھیں لیکن ان چیلنجز کا چہرہ بڑا ہے۔ اُس وقت بھی مرکز میں این ڈی اے کی حکومت تھی اور سونیا کا مقابلہ بے حد مضبوط پارٹی اور تشہیری نظام سے تھا لیکن 2004 میں سونیا جی نے واپسی کی اور دس سال تک کانگریس برسراقتدار رہی۔ میرا ماننا ہے کہ آج راہل کے چیلنجز بڑے ہیں۔ آج بی جے پی کا تشہیری نظام زیادہ مضبوط، تنظیم مستحکم اور پیسہ و طاقت بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسے میں راہل گاندھی کو سخت مقابلے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ دراصل یہ چیلنجز صرف راہل گاندھی کے سامنے نہیں ہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ہے۔ چونکہ کانگریس ملک کی دوسری سب سے بڑی پارٹی ہے اور اس کی قیادت راہل گاندھی کر رہے ہیں تو ظاہر ہے ان کی ذمہ داری زیادہ ہے۔
اس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں کہ گجرات میں بی جے پی کی فتح کو یقینی بنانے کے لیے آر ایس ایس نے پوری طاقت لگا دی۔ آپ اس ضمن میں کیا سوچتے ہیں؟
بی جے پی ایک پارٹی کی شکل میں آر ایس ایس کا مکھوٹا ہے۔ بی جے پی، امت شاہ، مودی، یہ سب محض کٹھ پتلیاں ہیں۔ اسی لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ گجرات کے انتخابی نتائج نہ صرف بی جے پی، مودی و امت شاہ بلکہ آر ایس ایس اور پوری رائٹ وِنگ سوچ کی شکست ہے۔ 2014 میں جس رائٹ وِنگ نظریہ کا عروج شروع ہوا تھا اس کے زوال کی شروعات گجرات انتخابات کے ساتھ ہو چکی ہے۔
راشٹریہ جنتا دل سربراہ لالو پرساد کو گزشتہ عدالت نے چارہ گھوٹالہ میں قصوروار قرار دیا اور جیل بھیج دیا گیا۔ اس پر آپ کا کیا رد عمل ہے؟
لالو جی کو ذیلی عدالت نے قصوروار ٹھہرایا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ لالو جی اس کیس کے ملزم ہیں۔ جو لوگ آج حکمرانی کر رہے ہیں ان لوگوں نے ان کے خلاف کیس چلایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہائی کورٹ سے بری ہوں گے۔ اس سے قبل ان کے اوپر آمدنی سے زیادہ ملکیت رکھنے کا معاملہ چلایا گیا لیکن اس معاملے میں وہ سپریم کورٹ سے بری ہو گئے۔ چارہ گھوٹالہ کے معاملے میں بھی وہ بری ہوں گے۔جہاں تک اس پورے معاملے کے سیاسی اثر کا تعلق ہے، لالو جی کے جیل جانے سے ان کی اور ہماری طاقت میں مزید اضافہ ہوگا۔ جب اسمبلی انتخابات کے دوران اتحاد ہوا تھا تب بھی ان کے اوپر کیس تھا، وہ جیل گئے تھے لیکن اسمبلی انتخابات میں اتحاد کو فتح و کامرانی حاصل ہوئی تھی۔ پرانی جنتا دل فیملی ایک ہوئی اور کانگریس کا تعاون حاصل ہوا تو بی جے پی کو ہم نے بہار میں دھول چٹا دیا۔ ایک بار پھر یہی ہوگا۔ جیل جانے سے لوگوں میں لالو جی کی عزت مزید بڑھے گی۔
جنتا دل یو سے نکالے جانے کے بعد آپ کی راجیہ سبھا رکنیت بھی چلی گئی۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نائب صدر جمہوریہ ایم ونکیا نائیڈو (جو کہ راجیہ سبھا کے چیئرمین بھی ہیں) نے سیاست سے متاثر ہو کر فیصلہ کیا۔ آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
میری راجیہ سبھا رکنیت ختم کرنا ایک سیاسی فیصلہ تھا۔ ہم لوگ جنتا دل یو کے آئین اور اصول کو ماننے والے ہیں۔ ہم لوگوں نے بہار کے مینڈیٹ کی عزت کرتے ہوئے نتیش کمار کے بی جے پی میں شامل ہونے کی مخالفت کی لیکن سازش کے تحت میری رکنیت ختم کی گئی۔ جو لوگ تقریر دے رہے تھے کہ آر ایس ایس سے پاک ہندوستان بنائیں گے اور کہہ رہے تھے کہ زہر کھا لیں گے لیکن بی جے پی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کریں گے وہی بی جے پی کی گود میں جا کر بیٹھ گئے۔ کپل سبل میرا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ فی الحال تو عدالت نے اسٹے آرڈر دے دیا ہے لیکن آخری فیصلہ 31 مارچ کو آئے گا۔ ویسے میں سوچتا ہوں کہ یہ اچھا ہی ہوا۔ اب میرے پاس ملک بھر کا دورہ کرنے اور لوگوں سے ملاقات کے لیے کافی وقت ہے۔ پہلے میرا بہت سارا وقت پارلیمنٹ میں گزرتا تھا لیکن اب میں خود کو مستقبل کے سیاسی کام کے لیے زیادہ اہل محسوس کرتا ہوں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز