مہاراشٹر کابینہ میں وزیر توانائی اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کے شعبہ درج فہرست ذات کے صدر ڈاکٹر نتن راؤت کو گزشتہ روز اتر پردیش کے اعظم گڑھ میں حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ اعظم گڑھ کے ایک گاؤں بانس گاؤں میں ایک دلت پردھان ستیہ میو جیتے عرف پپو کے قتل کے بعد ان کے اہل خانہ سے دیگر کانگریس لیڈران کے ہمراہ ملاقات کے لئے جا رہے تھے۔ ستیہ میو جیتے کے قتل کے بعد اعظم گڑھ میں سیاسی ہلچل بڑھ گئی ہے اور مقامی دلت طبقہ کے لوگ اسے اپنی عزت نفس پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ نتن راؤت اب واپس مہاراشٹر لوٹ چکے ہیں۔
’قومی آواز‘ کے لئے ’آس محمد کیف‘ نے ڈاکٹر نتن راوت سے خصوصی گفتگو کی، پیش ہیں بات چیت کے اہم اقتباسات...
Published: undefined
آپ کافی پریشان نظر آ رہے ہیں، کیا اتر پردیش حکومت نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا؟
میں کانگریس کے شعبہ درج فہرست ذات کا صدر ہوں۔ ملک بھر میں دلتوں کے خلاف جہاں بھی استحصال کیا جائے گا میں وہاں جاؤں گا۔ اپنے سماج کے لوگوں کی تکلیف سنوں گا اور جو مدد کر سکتا ہوں اس کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ میں یہی کرنے گیا تھا۔ اعظم گڑھ میں دلت سربراہ کا قتل دلتوں کی عزت نفس پر چوٹ کے مترادف ہے۔ وہ پردھان کافی نڈر اور ذہین تھا اور اپنی بات کو بے باکی سے رکھتا تھا۔ اس کے بعد پولیس کی گاڑی سے کچل کر ایک لڑکے کی موت ہو گئی۔ میں متاثرین کے گھر جا رہا تھا اور یہ کوئی سیاست نہیں تھی۔
میں اپنے لوگوں کا غم غلط کرنے کے لئے گیا تھا لیکن مجھے طاقت کے زور پر روک دیا گیا، حراست میں لے لیا گیا۔ یہ مکمل طور پر غیر جمہوری عمل تھا۔ تاناشاہی کا دور دورہ ہے۔ پولیس کا طرز عمل انتہائی توہین آمیز تھا۔ میں حکومت مہاراشٹر میں وزیر ہوں اور اسی کے مطابق میں نے پروٹوکول طلب کیا تھا۔ میں وہاں ان کا مہمان تھا لیکن میری توہین کی گئی اور مجھے متاثرین سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
آپ مہاراشٹر حکومت میں وزیر ہیں، ناقدین کہہ سکتے ہیں کہ آپ اتر پردیش کیوں آئے، دلتوں میں پریشانیاں تو وہاں بھی ہوں گی!
اتر پردیش میں این سی آر بی (نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو) کے اعداد و شمار کے مطابق دلتوں کے خلاف مظالم میں 47 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جو بھی ان سے اختلاف رائے ظاہر کرتا ہے، یہ ان کے خلاف جابرانہ پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ پہلے یہی مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا تھا جو اب دلتوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ستیہ میو جیتے ہماری پارٹی کے کارکن تھے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس کی بیباکی مقامی غنڈوں کی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی۔ میں ان کے اہل خانہ سے ملاقات کر کے ان کا غم غلط کرنا چاہتا تھا۔ ہم کوششیں نہیں چھوڑیں گے اور اتر پردیش آتے رہیں گے، چاہے حکومت ہمیں روکنے کی کتنی ہی کوشش نہ کرے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ آپ کے وہاں جانے سے نظام قانون متاثر ہوسکتا تھا!
اتر پردیش میں نظام قانون باقی ہی کہاں ہے! کہیں 6 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے، کہیں دلت نابالغ لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی جا رہی ہے۔ کہیں پوری بس ہائی جیک ہو جاتی ہے۔ پولیس اہلکار مارے جا رہے ہیں۔ اتر پردیش انتظامیہ کو صوبہ کے وزیر اعلی کی سیاسی تاریخ کو پڑھنا چاہیے اور میری 45 سالہ سیاسی تاریخ کو بھی جاننا چاہیے۔ کیا لوگوں کو مشتعل کرنے کا میرا کوئی ریکارڈ موجود ہے؟ کیا میں کسی مجمع سے خطاب کرنے جارہا تھا؟ کیا میری کار میں کوئی غیر قانونی اسلحہ برآمد ہوا ہے؟ کیا میری کار میں کوئی قابل اعتراض مواد تھا؟
دراصل، یوگی حکومت حزب اختلاف کی آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، وہ خود کو مضبوط دکھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں بہت کمزور ہیں۔ میرے علاوہ بھی تو انہوں نے کسی دوسرے دلت رہنما کو گاؤں نہیں جانے دیا۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ مقامی پولیس اس قتل کو ذات پات کی بنیاد پر تفریق مان ہی نہیں رہی۔ پولیس نے میرے آئینی حقوق سلب اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔
آپ کو کیوں لگتا ہے کہ پولیس نے آپ کے جمہوری حقوق کی خلاف ورزی کی ہے؟
میں نے باضابطہ طور پر ایک خط جاری کیا ہے کہ میں مہاراشٹر حکومت میں کابینہ کا وزیر ہوں۔ میں وارانسی ہوائی اڈے سے کار کے ذریعے روانہ ہوا تھا۔ میں اتر پردیش میں مہمان تھا، لہذا مجھے مقامی پولیس کا تعاون حاصل ہونا چاہیے تھا، لیکن الٹے پولیس نے مجھے تحویل میں لے لیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم آپ کو اعظم گڑھ لے جا رہے ہیں جہاں کانگریس کے دیگر رہنماؤں کو تحویل میں رکھا گیا ہے۔ ان میں کانگریس کے ریاستی صدر اجے کمار للو اور راجیہ سبھا کے رکن پی ایل پونیا بھی شامل تھے۔ مجھ سے اعلیٰ پولیس افسران نے بات تک نہیں کی اور پولیس اہلکاروں کا برتاؤ بھی غیر پیشہ وارانہ تھا۔ میری کافی کوششوں کے باوجود مجھے بانس گاؤں جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی مجھے کسی سے بات کرنے دی۔ اب یہ انسانی حقوق کی پامالی نہیں تو اور کیا ہو سکتی ہے؟
کیا اتنے تلخ تجربے کے بعد آپ پھر اترپردیش آئیں گے؟
دلتوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے، ہم لڑیں گے۔ سب کچھ ہماری لڑائی کو متاثر کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اتر پردیش میں ہم کسی بھی طرح کے جمہوری حقوق کی پامالی پر دلتوں کی آواز بنیں گے۔ اعظم گڑھ سے سہارنپور تک ہم ہر اس جگہ جائیں گے جہاں دلتوں کو ستایا جائے گا۔ ہم خوفزدہ نہیں ہیں اور نہ ہی ہم مستقبل میں ڈرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اعظم گڑھ میں ہم گاؤں کے پردھان ستیہ میو جیتے کے کنبہ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز