بی جے پی کے سابق تنظیمی وزیر اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے قریبی رشتہ رکھنے والے کے این گوونداچاریہ کا دعویٰ ہے کہ ہمارا آئین ہندوستانی اقدار کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ نہ صرف ہندوستان کے آئین کو پھر سے لکھے جانے کی ضرورت ہے بلکہ اس کے پیش لفظ سے سیکولرزم اور سوشلزم جیسے الفاظ کو ہٹا دیا جانا چاہیے۔ ’قومی آواز‘ سے اس سلسلے میں انھوں نے تفصیلی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات۔
Published: undefined
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے حال ہی میں کہا ہےکہ آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ ایک سال پہلے آپ نے کہا تھا کہ آئین کوپھر سے لکھے جانے کی ضرورت ہے۔ آخر آپ لوگ ایسا کیوں محسوس کر رہے ہیں؟
آئین میں ترمیم کرنا اور اس کو دوبارہ لکھا جانا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ حالانکہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔ ہمارا اصل مقصد آئین کو بدل کر اسے ہندوستانی اقدار کے مطابق بنانا ہے۔ اگر اس کام کا آغاز آئین میں ترمیم سے ہوتا ہے تو بھی کوئی غلط بات نہیں ہے۔ دو لوگ ایک ہی بات کو الگ الگ طریقے سے کہہ سکتے ہیں۔
موجودہ آئین سے آپ کو کیا اعتراض ہے؟
ہمارا آئین فردیت کو فروغ دیتا ہے اور فردیت ہندوستانی نظامِ اقدار کے خلاف ہے۔ ہمارا آئین فرد اور ریاست کے رشتوں کو متعارف کرنے والا دستاویز ہے۔ ہمارے ہندوستانی نظام کے اہم پہلو جیسے ذاتیاتی نظام، پنچایتی نظام اور کمیونٹی کا اس میں کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ فردیت مغربی نظریہ ہے۔ اسے ہندوستانی آئین کے بنیادی تصور کی شکل میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ آئین کی از سر نو تحریر فیملی، آرگنائزیشن اور ہندوستانی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جانا چاہئے۔
ہندوستانی آئین میں آپ کیا بدلنا چاہتے ہیں؟
بہت سی باتیں ہیں جنھیں بدلنا ہے۔ جیسے ’ایک فرد، ایک ووٹ‘ کا قانون بھی ہمارے آئین میں آنکھ بند کر کے اختیار کیا گیا ہے۔ اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ سے عوام ووٹ بینک میں تبدیل ہو گئی ہے اور معیار متاثر ہوا ہے۔ یکساں سول کوڈ، دفعہ 370 جیسی چیزوں کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔
اگر فردیت نہیں تو پھر آپ کا آئین کس چیز پر مبنی ہوگا؟
نیا آئین اجتماعیت کے اصول پر مبنی ہوگا۔ سیاسی لغت میں آپ اسے گلڈ نظام کہہ سکتے ہیں۔ گلڈ نظام میں الگ الگ ذات، پیشہ اور فرقہ کے نمائندوں کو لیا جائے گا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی جگہ ہم ایک نیشنل گلڈ بنائیں گے جس میں مجموعی طور پر 1000 نمائندے ہوں گے۔ 500 نمائندہ ٹیریٹوریل ریپریزنٹیشن کے ذریعہ آئیں گے اور 500 فنکشنل ریپریزنٹیشن کے ذریعہ شامل کیے جائیں گے۔ میرے خیال سے نیشنل گلڈ ہندوستان کے مسائل کو زیادہ بہتر طریقے سے سلجھا پائے گا۔
ہمارے آئین میں ایک فرد ہونے کے ناطے آپ کو کچھ بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، ان کا کیا ہوگا؟
ہمارے آئین میں حقوق اور ذمہ داری کے درمیان عدم توازن ہے۔ اسے ٹھیک کیے جانے کی ضرورت ہے۔ آج کل حقوق انسانی لفظ بہت مستعمل ہے۔ اس کے بارے میں سب بات کرتے ہیں لیکن ذمہ داریوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ آئین میں بنیادی ذمہ داریوں کا بھی تذکرہ ہے۔ حقوق اور ذمہ داری ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ جیسے اظہار رائے کی آزادی قومی تحفظ کے ضمن میں دیکھی جانی چاہیے۔ کسی کو بھی غیر محدود آزادی نہیں دی جا سکتی۔
آئین کے پیش لفظ میں ’جمہوریت‘ لفظ کا تذکرہ ہے۔ کیا آپ اس میں بھی تبدیلی لائیں گے؟
آئین کا پیش لفظ پوری طرح سے ہندوستانی اقدار کے خلاف ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان کی آئین میں سیکولرزم (جمہوریت) اور سوشلزم جیسے الفاظ کو جوڑنے کی ضرورت کیا تھی؟ جمہوریت لفظ 42ویں آئین ترمیم کی شکل میں ایمرجنسی کے دوران جوڑا گیا۔
دراصل سیکولرزم مغرب میں پیدا شدہ نظریہ ہے۔ وہاں کی خاص تاریخی صورت حال کی وجہ سے یہ لفظ وجود میں آیا۔ یورپ میں پوپ اور راجہ کے درمیان ہوئی طاقت کی تقسیم کو ہی سیکولرزم کہا گیا جب کہ ہندوستان میں ایسا نہیں ہے۔ ہندوستانی ماحول اور تاریخ مختلف ہے۔ ہندوستان کا وجود اس وقت سے ہے جب یورپ میں نیشن اسٹیٹ کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔
ہندوستان کے اعتبار سے سیکولرزم کا مطلب کیا ہے... ہندوﺅں کی مخالفت اور اقلیتوں کی اندھی حمایت۔ اس لفظ سے جتنا جلد ہو سکے چھٹکارا پا لینا چاہیے۔
اور سوشلزم... اس سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے ہیں کہ سوشلزم ہے کیا؟ کیا سوشلزم کا مطلب ’اسٹیٹ ازم‘ ہے یا پھر اس کا مطلب وسائل کا سوشلائزیشن ہے۔ ہندوستان میں سوشلزم کے جتنی بھی شاخ ہیں، پارٹیاں ہیں ان میں سے کسی کے پاس بھی وضاحت نہیں ہے۔ کسی کو پتہ نہیں کہ وسائل کا سوشلائزیشن کیسے کرنا ہے۔ سوشلزم سوویت یونین میں پیدا ہوا ایک رد عمل پر مبنی نظریہ ہے۔ اسے بھی 42ویں ترمیم کے بعد آئین میں جوڑا گیا۔ سوشلزم کے نظریہ کو ظاہر کرنے والا ایک بہتر لفظ ہندوستانی روایت میں ہے ’انتیودیہ‘۔ اس کا مطلب ہے آخری فرد کو ترجیح۔
آئین کے پیش لفظ میں ہندوستان کو جمہوری ریاست کہا گیا ہے۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
جمہوریت کا نظریہ اہم ہے نہ کہ لغت۔ ہم نے جس جمہوری نظام کو اپنایا ہے اس میں کئی خامیاں ہیں۔ صحیح معنوں میں یہ جمہوری ہے بھی نہیں۔ میرا ماننا ہے کہ مقابلہ پر مبنی جمہوریت کی جگہ سبھی کے اتفاق اور اجازت پر مبنی نظریہ جمہوریت کی بنیاد ہونی چاہیے۔ اقتدار میں شراکت داری کا طریقہ بھی بدلا جانا چاہیے۔ 49-51 والا اصول ٹھیک نہیں ہے۔ اگر کسی کو 51 فیصد ووٹ ملے تو وہ اقتدار میں رہے گا اور جسے 49 فیصد ووٹ ملے اس کا کیا؟ 49 فیصد ووٹوں کا معاملہ پھر حل کیسے ہوگا؟
کیا آپ نے نئے آئین کا کوئی ڈرافٹ بھی تیار کیا ہے؟ اس سلسلے میں حکومت سے کوئی تبادلہ خیال ہوا ہے؟
اس سلسلے میں کئی سطح پر امن کے ساتھ تبادلہ خیال ہو رہا ہے۔ ہم لوگوں سے ان کے نظریات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ سے میں نے اوپر جو باتیں کی ہیں وہ اسی تبادلہ خیال کے بعد سامنے آئی ہیں۔ کئی تحقیقی ادارے، طلبا تنظیمیں اور دانشور لوگ اس عمل میں شامل ہیں۔ آئندہ سال (2018) کے آخر تک ممکن ہے آپ سے بات کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ اہم چیزیں موجود ہوں۔
حکومت سے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ جب ہمارا ڈرافٹ آ جائے گا تو سب کو پتہ چلے گا۔ اسمبلی نے ڈرافٹ بنانے میں تین سال کا وقت لیا۔ وہ بھی تب جب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 پہلے سے موجود تھا۔ اسی ایکٹ کو بنیاد بنایا گیا اور تھوڑا ٹھیک ٹھاک کر کے آئین تیار کیا گیا۔ تھوڑا وقت ہمیں بھی لگے گا۔
آج کل متوازی انتخابات کے بارے میں بہت باتیں چل رہی ہیں۔ آپ کا کیا ماننا ہے۔ یہ ملک کے لیے اچھا ہے؟
اصولاً میں اس سے متفق ہوں لیکن مجھے اس کے کامیابی کے ساتھ نفاذ پر شبہ ہے۔ ملک کی سبھی اسمبلیوں کو ایک ساتھ کیسے تحلیل کیا جائے گا۔ کس طرح ایک ساتھ ہر جگہ انتخابات کرائے جائیں گے؟ ’نو کنفیڈنس موشن‘ کا کیا ہوگا؟ بہت سے سوال ہیں جن کے جواب دیے جانے کی ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز