دلت لیڈر اور مرکز کی نریندر مودی حکومت کے خلاف جارحانہ رخ اختیار کر چکے جگنیش میوانی نے جس انداز میں یہ اعلان کیا کہ وہ قومی سطح پر مودی حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس کے فاشسٹ ایجنڈے کے خلاف مہم چلائیں گے اس سے واضح ہے کہ گجرات سے نومنتخب ممبر اسمبلی یہ لیڈر قومی سیاست میں اپنا خاص مقام بنائے گا۔ ہندوتوا فاشزم پر براہ راست حملہ آور ہونے کے ساتھ ساتھ جگنیش ملک کے تمام اقلیتی گروپوں، ترقی پذیر خیموں کے درمیان اتحاد کا فارمولہ بھی تلاش کر رہے ہیں۔ آئندہ 9 جنوری کو ملک کی راجدھانی دہلی میں ’یوا ہنکار ریلی‘ کا انعقاد بھی اسی مقصد کے تحت کیا گیا ہے۔ جگنیش چاہتے ہیں کہ اس ریلی کے ذریعہ فاشزم سے متاثر تمام حلقوں کو ایک اسٹیج پر لایا جائے اور خصوصاً نوجوان طبقہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔
جگنیش میوانی نے ایک بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ اتر پردیش کی جیل میں راسوکا کے تحت بند دلت لیڈر چندر شیکھر راؤ کی ’بھیم آرمی‘ کی پوری ٹیم کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے جو مودی حکومت کو ایک بڑا پیغام دینے کی کوشش ہے۔ دہلی کے پریس کلب میں میڈیا سے کھچا کھچ بھرے احاطہ میں جگنیش 2019 تک کے اپنے روڈ میپ کو پیش کر رہے تھے۔ وہ خود کو مودی مخالف لہر کے سنٹر میں لانے کا کوئی بھی موقع ضائع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جلد ہی وہ اتر پردیش کی جیل میں بند چندر شیکھر راون سے ملنے جا رہے ہیں، کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان میں چھوٹے بڑے اجلاس کی تیاری بھی وہ کر رہے ہیں۔ میوانی نوجوانوں کا ایک بڑا گروپ تیار کرنے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ’جال‘ سے نوجوانوں کو باہر نکالے بغیر 2019 کی انتخابی لڑائی نہیں جیتی جا سکتی۔
جگنیش نے پریس کانفرنس کے بعد ’قومی آواز‘ کی بھاشا سنگھ سے کئی موضوعات پر گفتگو کی۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات...
Published: 05 Jan 2018, 8:53 PM IST
بھاشا سنگھ: آپ لگاتار کہہ رہے ہیں کہ آپ سے مرکز کی مودی حکومت اور آر ایس ایس پریشان ہے۔ آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے جب کہ ان کے پاس تو زبردست اکثریت ہے؟
جگنیش: اب یہ تو وہی بتائیں گے کہ کیوں پریشان ہیں۔ میں تو بھیم کوریگاؤں گیا نہیں، میں نے کوئی قابل اعتراض تقریر دی نہیں، میں نے ممبئی بند میں بھی حصہ نہیں لیا، پھر بھی میرے خلاف ایف آئی آر کیوں؟ میں نے گجرات میں چناؤ لڑا تو بی جے پی نے شکست دینے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دی، آخر کیوں؟ یہ ان کی بوکھلاہٹ ہے جو صاف نظر آ رہی ہے۔ انھیں پتہ ہے کہ اگر اس بندے کا پروفائل اور بڑھا تو 2019 میں یہ زیادہ طاقتور بن جائے گا۔ وہ ملک میں فاشزم لاگو کرنے پر بضد ہیں۔ اب آپ دیکھیے کہ جب وہ مجھے ہی نہیں چھوڑ رہے ہیں، ہر طرف سے گھیر رہے ہیں تو کسی عام آدمی کو کیا لڑنے دیں گے۔
مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں یا پھر ان کی شورش پسند ہندوتوا نظریہ والی تنظیمیں، وہ لگاتار ماحول کو کشیدہ کر رہی ہیں، آب و ہوا میں تشدد کا زہر پھیل رہا ہے، ایسے میں دلتوں کے حق کی بات کیسے کی جائے گی؟
دیکھیے، میں شروع سے کہہ رہا ہوں کہ ہمیں آئین کا راستہ اختیار کرنا ہے، جمہوری اقدار پر اپنی تحریک کھڑی کرنی ہے۔ میں خود پیشے سے وکیل ہوں اور میں جانتا ہوں کہ قانون کی حد کیا ہے۔ میں قصداً بھیما کوریگاؤں نہیں گیا، میں نے سوچ سمجھ کر مہاراشٹر بند میں حصہ نہیں لیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ مجھے دیکھ کر وہ دلتوں کی پوری ناراضگی اِدھر موڑ دیں گے۔ دلتوں میں غصہ حکومت کے خلاف تھا، تشدد پسند ہندتوا تنظیموں کے خلاف تھا اور وہ اپنی ریلی سے اس کا اظہار کر رہے تھے۔ اب دیکھیے، کس بدمعاشی کے ساتھ میرے اوپر مقدمہ کر کے تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ مہاراشٹر حکومت کو جواب دینا چاہیے کہ تشدد کس طرح ہوا، کس نے کیا اور حکومت نے ایسا کیوں ہونے دیا۔
آپ کی آگے کی پالیسی کیا ہے؟
میری کوشش ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں جا کر ایک مضبوط دلت تحریک، نوجوان تحریک کی بنیاد ڈالوں۔ بہت ہی جلد میں ایک یوتھ پلیٹ فارم شروع کرنے جا رہا ہوں جو بے روزگاری کے مسئلہ پر مرکوز ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ترقی کا ایک متبادل ماڈل تیار ہو جس میں سب کی شرکت ہو۔ یہ پلیٹ فارم تمام مذہبی، جمہوری، ترقی پذیر اور حقوق کے لیے لڑنے والی طاقتوں کا سنگم ہوگا۔
آپ فاشزم کو کتنا بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں؟
یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ تو ہمارے سر پر چڑھ چکا ہے۔ اظہار رائے کی آزاد کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ مخالف آواز کو دبانے اور خاموش کرنے کے لیے پورا سسٹم مستعد نظر آ رہا ہے۔ یہ کسی کا بھی قتل کرا سکتے ہیں۔ انھوں نے کلبرگی کو مارا، پنسارے کو مارا، دابھولکر کو مارا، روہت ویمولا کا قتل کرایا، نجیب کو غائب کر دیا، میری ماں جیسی گوری لنکیش کا قتل کر ادیا، یہ مجھے بھی مار سکتے ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ اس جمہوری ملک کا شہری ہونے کے ناطے ہمیں اس فاشسٹ نظریہ سے لڑنا چاہیے۔ ان کے منصوبوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔ یہ طاقتیں ملک کے لیے نقصاندہ ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 05 Jan 2018, 8:53 PM IST