نئے زرعی قوانین کے خلاف دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کا مظاہرہ جمعرات کو 15ویں دن بھی جاری ہے۔ اس درمیان کسانوں کا کہنا ہے کہ قوانین میں ترمیم کے لیے بہت دیر ہو چکی ہے، اگر حکومت واقعی میں ترمیم کرنا چاہتی تو ستمبر میں ہی ایسا کر سکتی تھی جب انھوں نے پہلی بار پورے پنجاب میں احتجاجی مظاہرہ شروع کیا تھا۔ انھوں نے تحریک میں کسی بھی طرح سے غیر ملکی ہاتھ ہونے کی بات کو بھی خارج کر دیا ہے۔ حالانکہ انھوں نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ ان کی تحریک عالم گیر تحریک میں بدل جائے گی۔
Published: undefined
پنجاب کے سینئر کسان لیڈر بلدیو سنگھ سرسا نے ایک خصوصی بات چیت کےد وران کہا کہ ’’جو لوگ کہتے ہیں کہ چین اور پاکستان اس تحریک کو چلا رہے ہیں، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اقوام متحدہ (یو این) ہماری حمایت کر رہا ہے، کیا یو این بھی چین اور پاکستان کے ذریعہ چلایا جاتا ہے؟‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت نے اعتراف کر لیا ہے کہ قانون میں کوئی خامی ہے، تو صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اسے واپس لے۔ ’قومی آواز‘ کے قارئین کے لیے پیش ہے سرسا سے بات چیت کے کچھ اہم اقتباسات:
Published: undefined
چونکہ آپ نے مرکزی حکومت کے ذریعہ پیش کردہ تجاویز کو پہلے ہی خارج کر دیا ہے، تو اب آگے کا کیا منصوبہ ہے؟
ہمارا طریقہ بہت واضح ہے۔ ہم نے پرامن طریقے سے احتجاجی مظاہرہ کرنا شروع کیا تھا، پرامن طریقے سے مظاہرہ چل رہا ہے، اور آگے بھی اسی طرح سے جاری رہے گا۔ جہاں تک منصوبہ بندی کی بات ہے، ہم نے ’آؤ دلّی، چلو دلّی‘ کا نعرہ دیا ہے۔ اس کے تحت ہم 12 دسمبر تک دہلی-جے پور ہائی وے کو بند کر دیں گے۔ علاوہ ازیں 14 دسمبر کو ضلعوں میں مظاہرہ شروع ہو جائے گا اور جو لوگ دہلی نہیں پہنچ سکتے ہیں، وہ اپنے ضلع میں ہی احتجاجی مظاہرہ کریں گے۔ اس کے علاوہ ہم ’جیو‘ سمیت ریلائنس کی سبھی مصنوعات اور مالوں و پٹرول پمپوں کا بائیکاٹ کریں گے۔ ہم پورے ملک میں بی جے پی کے وزراء کے گھروں کا گھیراؤ بھی کریں گے۔
حکومت نے آپ کے سبھی ایشوز کا حل نکالتے ہوئے ایک طویل ڈرافٹ بھیجا، کیونکہ قانون میں پہلے سے ہی ترمیم کیے جا چکے ہیں، پھر آگے بڑھنے کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟
اب ترامیم کے لیے بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ اگر حکومت واقعی میں ایسا کرنا چاہتی تھی تو انھیں ستمبر میں ہی ایسا کرنا چاہیے تھا جب ہم نے پورے پنجاب میں احتجاجی مظاہرہ شروع کیا تھا۔ وہ اب ترمیم کے لیے تجویز کیوں پیش کر رہے ہیں؟ حکومت نے کل جو تجویز بھیجی تھی، اس میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ 8 تاریخ کو ہم نے وزیر داخلہ کے ساتھ میٹنگ میں واضح کیا تھا کہ قانون واپس لینے کا جواب آسان طریقے سے ہاں یا نہیں میں ہی ہونا چاہیے۔ ترامیم کا وقت بہت پہلے گزر چکا ہے، اب حکومت سیدھی بات کرے۔ جب حکومت نے قبول کیا ہے کہ قوانین میں کوئی خامی ہے، تو انھیں قوانین واپس لینے کے تعلق سے سیدھے ہاں یا نہیں میں جواب دینا چاہیے۔
احتجاجی مظاہرہ میں شامل ہونے کے لیے مزید کتنے لوگ دہلی پہنچ رہے ہیں؟
یہ بے شمار اور لاتعداد لوگ ہوں گے۔ یہ ایک ملک کی تحریک نہیں رہی، بلکہ یہ اب دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ چین اور پاکستان اس تحریک کو چلا رہے ہیں، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اقوام متحدہ ہماری حمایت کر رہا ہے، کیا اقوام متحدہ کو بھی چین اور پاکستان چلا رہے ہیں؟ جو لوگ اس طرح سوچتے ہیں، انھیں دماغی امراض کے اسپتالوں (مینٹل ہاسپیٹل) میں داخل کرایا جانا چاہیے۔
چونکہ مستقبل میں منصوبہ دہلی-جے پور شاہراہ کو بند کرنے کا ہے، اس لیے آپ دہلی کے لوگوں سے کیا کہیں گے جنھیں اس کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟
ہم دہلی کے لوگوں اور ان سبھی لوگوں کے تئیں ہمدردی رکھتے ہیں جو ہماری تحریک کی وجہ سے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن ہم بے بس اور مجبور ہیں کیونکہ آج ہم جن مطالبات کے لیے لڑ رہے ہیں وہ بہت اہم ہے اور مستقبل میں ان کے (دہلی والوں کے) کردار کی تعریف ہوگی۔ میں دہلی کے لوگوں سے معافی مانگنا چاہوں گا کہ انھیں اس تحریک کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
آپ کیسے ان لوگوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں جو عمر دراز ہیں اور ٹھنڈ و کووڈ-19 کے سبب بیمار ہو سکتے ہیں؟
ملک بھر کے ہمارے بھائی ڈرائی فروٹس بھیج رہے ہیں۔ علاج کی بات کریں تو اس کے لیے میڈیکل کیمپ پہلے سے ہی لگے ہوئے ہیں۔ کمبل وغیرہ کا بھی پختہ انتظام ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز