کرناٹک میں انتخابی نتائج کے بعد معلق اسمبلی سے پیدا ہونے والا ڈرامہ اب ختم ہو گیا ہے۔ لیکن نتائج کے بعد اقتدار کے لئے جو جنگ شروع ہوئی وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی ۔اس کی وجہ تھی کہ مطلوبہ نمبر نہ ہونے کے با وجود گورنر نے بی جے پی کے بی ایس یدیو رپا کو حکومت تشکیل کرنے کے لئے مدعو کیا ، جبکہ کانگریس۔جے ڈی ایس اتحاد کے پاس 116 سیٹیں تھیں۔
نتائج آنے کے بعد جیسے ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے ویسے ہی کانگریس اور جے ڈی ایس نے اپنے نو منتخب ارکان اسمبلی کو ایک ساتھ اور بی جے پی سے دور رکھنے کا انتظام کیا۔ کناکپورا سے منتخب کانگریس کے رکن اسمبلی اور سابق وزیر ڈی کے شیو کمار کی سیاسی سوجھ بوجھ کی وجہ سے کانگریس کے ارکان اسمبلی متحد رہے اور ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہے۔
’قومی آواز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے شیو کمار نے بتایا کہ بی جے پی یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ اپنی گندی سیاست سے حکومت تشکیل کر لے گی لیکن ہم نے ایسا کرنے سے انہیں باز رکھا اور اپنے ارکان اسمبلی کو ان کے لالچ میں نہیں آنے دیا۔ پیش ہیں اس گفتگو کے اقتباسات۔
Published: undefined
کانگریس - جے ڈی ایس کا اتحاد کیسے ممکن ہوا؟
جس وقت ووٹوں کی گنتی ہو رہی تھی اسی وقت ہمیں احساس ہوا کہ ہمیں اکثریت نہیں مل رہی ۔ اس صورت میں پارٹی قیادت کا فیصلہ ہوا کہ وہ جے ڈی (ایس) کو غیر مشروط حمایت دیں گے۔ ہم سے اس کو یقینی بنانے کے لئے کہا گیا تھا۔ جے ڈی ایس کے ساتھ ہمارےکتنے بھی اختلافات کیوں نہ ہوں ، ہم بی جے پی کے خلاف تھے اس لئے ہم نے اپنی ذاتی سیاست کو اس سے علیحدہ رکھا۔
جیسا کہ بی جے پی کے پاس مطلوبہ نمبر نہیں تھے تو کیا آپ کو لگتا تھا کہ بی جے پی مطلوبہ نمبر حاصل کرسکتی تھی؟
بی جے پی یقینی طور پر کانگریس کے ارکان اسمبلی کو خرید لیتی۔ انہوں نے بڑی تعداد میں پیسہ دینے کی پیش کش شروع کر دی تھی۔ وہ 5 کروڑ، 15 کروڑ اور 150 کروڑ روپے تک کی پیش کش کر رہی تھی ۔ ہم نے اپنے ارکان سے کہا کہ وہ اس بات چیت کو ریکارڈ کر لیں۔
اب انکم ٹیکس محکمہ کو ان ارکان کے بارے میں پتہ لگانا ہوگا ۔ میں ان تمام ارکان اسمبلی کے نام تو نہیں بتا سکتا جن کو رقم دینے کی پیش کش کی گئی تھی۔
آپ نے کیسے اپنے ارکان اسمبلی کو متحد رکھا اور ان کو کیسے سمجھایا؟
ہمیں ارکان اسمبلی کومتحد رکھنے میں دشواری تو ضرور ہو ئی۔ پہلے ہم نے اپنے ارکان اسمبلی کو بنگلورو آنے کے لئے کہا۔ اس کے بعد ہم نے ان کویہی سمجھایا کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ہمیں معلوم تھا کہ حتمی نتائج کے بعد بی جے پی ہمارے ارکان اسمبلی کو توڑنے کی کوشش کرے گی۔ ان کے پاس پیسہ ضرور ہے لیکن۔۔۔ اس لئے ہم نے تیزی سے اپنی حکمت عملی پر کام کرنا شروع کر دیا اور تمام ارکان کو ایک جٹ رکھنے میں کامیاب رہے۔
ان ارکان اسمبلی کے گھر والے بھی فکر مند تھے کیونکہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے جا رہے تھے۔ گھر والوں کو بھی بی جے پی حامی فون کر کے پیسے اور دوسرے فوائد کا لالچ دے رہے تھے۔ ہم ان کو متحد رکھنے میں اس لئے بھی کامیاب رہے کیونکہ ہم انہیں سمجھا بھی پائے اور ان میں اعتماد بھی پیدا کر پائے کہ ہماری ہی جیت ہوگی۔ہم نے انہیں بتا دیا تھا کہ ہمارے پاس نمبر ہیں اور اگر ہم متحد رہے تو ہم حکومت بنا لیں گے بصورت دیگر ہمیں اپوزیشن میں بیٹھنا ہو گا اوریہ ریاست کے لئے اچھا نہیں ہے۔ یہ بات ثابت بھی ہوئی کہ ہم متحد رہے اسی لئے بی جے پی کچھ نہیں کر پائی۔
اس وقت پردہ کے پیچھے جو کچھ چل رہا تھا اس کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیں؟
ہم سبھی ارکان کو پہلے ایگلٹن ریسورٹ لے کر گئے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ ہمارے ارکان اسمبلی کو توڑ نہ سکیں۔ میڈیا میں جو خبریں چلائی گئیں کہ وہ ریسورٹ میرے بھائی ڈی کے سریش کا ہے جو کہ سراسر غلط تھا۔ وہ ریسورٹ صرف ان کی پارلیمانی سیٹ میں واقع ہے۔ وہاں صرف کانگریس کے ارکان تھے جے ڈی ایس کے نہیں۔ پھر ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کی حفاظت کے لئے ریاست سے باہر لے جایا جائے تاکہ ان تک کسی کی رسائی حاصل نہ ہو سکے۔
کچھ ارکان اسمبلی حیدرآباد نہیں گئےلیکن ہمیں اس بات کا یقین تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران وہ ہمیں ہی ووٹ کریں گے، میں ان سے لگا تار رابطہ میں تھا۔ بی جے پی نے گندی سیاست کی، لیکن ہم نے ایسا کرنے نہیں دیا۔ہم انہیں کیرالہ لے جانا چاہتے تھے لیکن ہمیں پتہ لگا کہ وہاں اتنے کمرے نہیں مل سکتے۔ ہمیں سو کمرے چاہئے تھے۔ پھر تلنگانہ پردیش کانگریس نے ہمیں مطلع کیا کہ حیدر آباد میں ایسے ہوٹل ہیں جنہیں ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں زمینی مدد فراہم کی۔
پھر ہم نے حیدر آباد کے پارک حیات ہوٹل سے رابطہ کیا جس کے مالک کانگریس رہنما سبا رمی ریڈی ہیں لیکن وہاں بھی کمرے کافی نہیں تھے کیونکہ وہاں دیگر ارکان ٹھہرے ہوئے تھے۔ تاج کرشنا گروپ میں مطلوبہ کمرے موجود تھے۔ ہم نے وہاں 90 کمرے بک کرائے ، کیونکہ زیادہ تر منتخب ارکان اسمبلی کے ساتھ سپورٹ اسٹاف بھی ساتھ میں تھا اس لئے اتنے کمروں کی ضرورت تھی۔
کیا آپ کو ٹی آر ایس سے مدد ملی؟
حیدر آباد کی پولس انتہائی مددگار ثابت ہوئی تھی۔ وہاں کے اعلی رہنماؤں نے ہمیں مطلع کیا کہ جیسے ہی ہم ریاست میں داخل ہوں گے ویسے ہی پولس ہمیں اسکارٹ کرے گی۔ ٹی آ رایس کے رہنماؤں نے ہم سے بات کی تھی اور انہوں نے ہر طرح کی مدد کی پیش کش کی تھی۔ ہمیں کئی جگہ سے حمایت مل رہی تھی کیونکہ ہم کرناٹک میں سیکولر حکومت کی تشکیل کے لئے متحد ہو رہے تھے۔
ایسا نہیں کہ یہ سب کچھ پہلی مرتبہ ہو رہا ہو، پارٹی کو ان سب کا اندیشہ تھا اور میری ذمہ داری تھی کہ میں تمام ارکان اسمبلی کو ایک متحدرکھوں۔ ایسا ہم پہلے بھی کر چکے ہیں ، پچھلے سال بھی کیا تھا اور چند سال قبل بھی کیا تھا۔ سیاست میں بی جے پی سے ہمیں یہی امید رکھنی چاہئے کہ وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔
آپ نے جے ڈی ایس رہنما ایچ ڈی کماراسوامی سے اپنے اختلافات کیسے دفن کئے؟
یہ ایک بڑا زخم ہے، ہمارے اور کماراسوامی کے درمیان کئی دہائیوں سے ایک مسئلہ ہے ، اسے ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔ لیکن جب پارٹی نے اتحاد کا فیصلہ لےلیا تو ہمیں اسی سمت میں کام کرنا پڑے گا۔ ہم کرناٹک میں سیکولر حکومت تشکیل کرنا چاہتے تھے جو کہ سب سے اہم تھا۔
کیا آپ اس حکومت کا حصہ ہوں گے؟
اس کا مجھے یقین نہیں ، فیصلہ کرنے والا میں نہیں ہوں۔ اس کا فیصلہ پارٹی کو کرنا ہے۔
کیا کانگریس -جے ڈی ایس اتحاد آگے کے لئے بھی ہو گا؟
اس کے لئے منصوبہ بنا رہے ہیں اور اس کا فیصلہ پارٹی کی اعلی قیادت لے گی۔مناسب وقت پر وہ لوگ بات کریں گے اور اپنے فیصلے کا اعلان کریں گے۔ کچھ مسائل ہیں جن پر بات کرنا ضروری ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز