آسٹریلوی رکن پارلیمان لاریسا واٹرز نے جب ایوان بالا میں اپنے نومولود بچے کو چھاتی سے دودھ پلایا، تو عالمی سطح پر ایک انتہائی شدید بحث شروع ہو گئی کہ آیا بچوں کو عوامی مقامات پر ماں کا دودھ دیا جا سکتا ہے؟
Published: undefined
ڈی ڈبلیو کے پروگرام ’وٹ ہیپنڈ نیکسٹ؟‘ یا ’آگے کیا ہوا؟‘ میں اپنے انٹرویو میں واٹرز سے جب یہ پوچھا گیا کہ انہیں ایسا کیوں لگا کہ انہیں عوامی سطح پر اپنے بچے کو چھاتی سے دودھ پلانا چاہیے، تو ان کا کہنا تھا، ’’دیکھیے میں رکن پارلیمان بھی ہوں اور ایک ماں بھی۔ مجھے دونوں کام کرنا ہیں۔ شکر ہے کہ یہ 2018 ہے اور ہم بیک وقت یہ دونوں کام کر سکتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
واٹرز کا کہنا ہے کہ ان کا بچہ بہت چھوٹا ہے اور اسے مسلسل دودھ درکار ہوتا ہے۔ ’’بچے بھوکے ہوں تو انتظار نہیں کرتے۔ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بالغوں کی دنیا کیسی ہے یا پارلیمان کسے کہتے ہیں۔ جب وہ بھوکے ہوتے ہیں، تو انہیں ہر حال میں خوراک درکار ہوتی ہے۔‘‘
Published: undefined
گو کہ دنیا کے بہت سے مقامات پر عوامی سطح پر بچوں کو ماں کا دودھ دیا جا سکتا ہے، تاہم خواتین کا کہنا یہ رہا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر اپنے بچوں کو دودھ پلانے میں جھجک محسوس کرتی ہیں۔‘‘
Published: undefined
رواں برس ستمبر میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیکنڈا آردرن اپنی نومولود بیٹی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ساتھ لے گئیں۔ جنرل اسمبلی کے ہال میں بھی ماں بیٹی کو ایک ساتھ دیکھا گیا۔ آردرن کا کہنا تھا، ’’میں ایک ماں اور ایک رہنما کا کردار ملا رہی ہوں، کیوں کہ ایسا بالکل ممکن ہے۔ میری بیٹی تمام تقریبات میں میرے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘
Published: undefined
تاہم سرکاری اجلاس میں بچوں کو یوں لانا اب تک ایک متنازعہ یا کم از کم قابل بحث معاملہ ہے۔ ایک جاپانی سیاست دان یوکا اوگاتا نے گزشتہ برس برطانوی اخبار ٹیلی گراف سے بات چیت میں کہا تھا کہ انہیں ایک کونسل سیشن میں اپنا بچہ ساتھ لانے سے روکا گیا۔
Published: undefined
دوسری جانب رواں برس اکتوبر میں فن لینڈ میں حکام نے مطالبہ کیا کہ ملک میں نیا قانون منظور کیا جانا چاہیے، جس کے تحت کسی عوامی مقام پر کسی ماں کے اپنے بچے کو دودھ پلانے کے حق کا تحفظ کیا جاسکے۔ یہ بات اہم ہے کہ عوامی مقامات پر خواتین کو اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے حق کے لیے عالمی سطح پر ایک تحریک بھی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز