حالیہ عرصے کے دوران دنیا بھر میں ایک ہی وقت میں دو بچوں کی پیدائش کے کیسز میں غیر مسبوق اضافہ سامنے آیا ہے۔ ماہرین نے اس کے دو اسباب بیان کیے ہیں۔ پہلا سب 'اینٹی ریٹرو وائرس تھراپی' کے طریقہ علاج میں توسیع اور دوسرا حمل کی مدت میں تاخیر ہے۔
Published: undefined
دنیا بھر میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے واقعات میں اضافے سے متعلق ایک تحقیقی رپورٹ سائنسی جریدے'ہیومن ری پروڈکشن' میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سالانہ 16 لاکھ جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں۔ جڑواں بچوں کا کیس نئے پیدا ہونے والے اوسطا 40 بچوں میں سے ایک ہے۔
Published: undefined
نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے پروفیسر اور فرانس میں انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز کے محقق گلز بیسن نے وضاحت کی کہ 1980 کی دہائی کے بعد سے جڑواں بچوں کی پیدائش کی عالمی شرح میں ایک تہائی اضافہ ہوا ہے۔ تین دھائیوں کے دوران ایک ہزار پیدائشی کیسز میں 9،1 سے 12 جڑواں بچوں کے کیسز سامنے آئے۔
Published: undefined
ماہرین کا کہنا ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش میں کے کیسز میں اضافہ باعث تشویش ہے۔ایسے کیسز میں بچے اکثر وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے وزن کم ہوتے ہیں اور وہ ولادت کے دوران پیچیدگیوں کا سامنا کرتے ہیں اور ان میں اموات کی شرح دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ والدین کے لیے ایک ہی وقت میں جڑواں بچوں کی نگہداشت ایک مشکل مرحلہ ہوتی ہے۔
جڑواں بچوں کی تعدد میں عالمی سطح پر اضافہ "غیر شناخت جڑواں بچوں" میں اضافہ (دو مختلف بیضوں سے) کے حمل میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے ہے جو براعظم سے دوسرے براعظم براعظم تک اور زمانی فرق کے ساتھ مختلف ہوتا ہے۔
Published: undefined
پروفیسر بیسن کہتے ہیں کہ یکساں جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح منوزیگوٹس کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ پوری دنیا میں یکساں ہیں۔ یہ ایک "مستقل شرح" ہے جس میں ایک ہزار پیدائشوں میں ایک جیسی جڑواں بچوں کی چار پیدائشیں ہوتی ہیں۔ اس کا تعلق عورت کی عمر یا خطے کے ساتھ نہیں ہوتا۔
مطالعے کے مصنفین نے 1980 سے 1975 اور 2010-2015 کے ادوار کا موازنہ کیا۔ معلوم ہوا کہ افریقا کا خطہ ہر سال پیدا ہونے والے 3.2 ملین میں سے 1.3 ملین جڑواں بچے پیدا کرتا ہے۔ جڑواں بچوں کی تعداد سالانہ 650،000 ہے۔ ایشیا میں جڑواں بچوں کا تناسب بھی تقریبا ایسا ہی ہے۔ دوسرے براعظموں میں یہ تعداد چھ لاکھ تک ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined