جرمنی کی بیرٹلزمان فاؤنڈیشن نے اپنے اس تازہ مطالعاتی سروے کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیگر مذاہب کے لیے دقیانوسی و کٹر خیالات اور عدم برداشت طویل المدتی بنیادوں پر جمہوریت کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس تنظیم نے تجویز دی ہے کہ متعلقہ حکام کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لے چوکنا ہو جانا چاہیے۔
Published: undefined
اس ادارے نے مذاہب کے بارے میں لوگوں کی سوچ اور نظریات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ملک بھر میں کرائے گئے اپنے تازہ سروے (ریلیجن مانیٹر) میں مسلمانوں، مسیحیوں اور ایسے افراد کے انٹرویوز کیے، جو مذاہب کو نہیں مانتے۔ بیرٹلزمان فاؤنڈیشن ہر دو سال بعد اس طرح کے ایک سروے کا انعقاد کرتی ہے۔
Published: undefined
اس نئے مطالعے کے نتائج کے مطابق جرمنی میں مذہبی برداشت کی سطح میں کوئی فرق نہیں آیا تاہم سروے کے کئی جواب دہندہ افراد نے مذہب اسلام کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کیا۔ ان نتائج کے مطابق متعدد جرمن شہری اسلام کے بارے میں زیادہ اچھی سوچ نہیں رکھتے۔
Published: undefined
مہاجرین کی آمد اور عالمگیریت کے نتیجے میں جرمنی میں مذہبی تنوع میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اس مطالعے کے مصنف گیرٹ پیکل کے مطابق جرمنی کی بدلتی ہوئی ڈیموگرافی کے باوجود جمہوری نظام کے بارے میں لوگوں کی رائے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور کسی بھی مذہب کا پیروکار ایک اچھا ڈیموکریٹ ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
اس سروے میں شریک ترانوے فیصد مسيحیوں اور اکیانوے فیصد مسلمانوں کے علاوہ تراسی فیصد لادین افراد نے جمہوری نظام کی بھرپور انداز میں حمایت کی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
اس سروے کے نتائج کے مطابق بالخصوص جرمنی کے مشرقی علاقوں میں، جہاں مسلم آبادی انتہائی کم ہے، اسلام کے بارے میں تحفظات زیادہ نوٹ کیے گئے ہیں۔ اس سروے کے مطابق جرمنی کے مشرقی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تیس فیصد جواب دہندگان نے واضح طور پر کہا کہ وہ مسلمانوں کو بطور اپنا ہمسایہ نہیں دیکھنا چاہتے۔
Published: undefined
اسی طرح جرمنی کے مغربی علاقوں میں بھی کچھ جرمنوں میں ایسے احساسات دیکھے گئے ہیں۔ بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کے اس سروے کے مطابق جرمنی کے مغربی علاقوں میں سولہ فیصد جواب دہندگان نے بھی کہا کہ وہ اپنے ہمسائے میں مسلم گھرانوں کو نہیں دیکھنا چاہتے۔
Published: undefined
بیرٹلزمان فاؤنڈیشن سے وابستہ یاسیمین المنیور کا کہنا ہے کہ اس سروے کے نتائج کے مطابق صرف تیرہ فیصد کا کہنا ہے کہ جرمنی کو امیگریشن روک دینا چاہیے، اس لیے اسلاموفوبیا والی صورتحال نہیں ہے۔
Published: undefined
جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل سے منسلک ایمن مازیک نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا ہے کہ اس صورت حال کی ایک بڑی وجہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا پروپیگنڈہ ہے۔
Published: undefined
ایمن مازیک کا مزید کہنا ہے کہ سیاست اور میڈیا میں اسلام مخالف بیانیوں کی وجہ سے ان کا خیال تھا کہ صورتحال اس سے بھی زیادہ ابتر ہو گی لیکن یہ خوش کن بات ہے کہ پچاس فیصد جرمنوں کے خیال میں اسلام منفی نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز