واشنگٹن: واشنگٹن پوسٹ نے امریکہ میں خود اختیاری جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے سعودی شہری اور صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے دو ہفتوں کے بعد بدھ کو ان کا آخری مضمون شائع کیا گیا ہے، کیونکہ اخبار کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اس کے لئے کام کرنے والا مصنف- صحافی اب کبھی واپس 'لوٹ' کر نہیں آئے گا۔ یہ مضمون 'کال فار پریس فریڈم اکروس دی عرب ورلڈ' کے عنوان سے لکھا گیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے گلوبل اوپنينس کی ایڈیٹر قرین عطیہ نے خاشقجی کے کالم کے آغاز میں اپنے نوٹ میں لکھا کہ ’’مجھے یہ مضمون خاشقجی کے ٹرانسلیٹر اور اسسٹنٹ نے ان کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ کے سامنے آنے کے ایک دن بعد دیا۔ وہ گزشتہ سال ستمبر سے واشنگٹن پوسٹ کے لئے کالم لکھ رہے تھے۔ وہ سعودی عرب کے حکمرانوں کے مخالف تھے اور اپنے مضامین میں سعودی عرب کے حکمران اور ان کے احکامات پر تنقید کیا کرتے تھے‘‘۔
محترمہ عطیہ نے کہا کہ "پہلے ہم نے اس امید سے خاشقجی کے مضمون کو شائع نہیں کیا تھا کہ وہ لوٹ کر آئیں گے تو ہم دونوں ساتھ مل کر اس کی ایڈیٹنگ کریں گے اور چھاپیں گے۔ لیکن اب مجھے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے"۔
انہوں نے اپنے نوٹ کے آخر میں لکھا کہ "جمال خاشقجی کے آخری کالم میں عرب ممالک میں آزادی اور اظہار رائے کے لئے ان کے عزم اور جنون بہترین طریقے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس آزادی کی وجہ سے آخر کار ان کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ میں اس کے لئے ان کا ہمیشہ شکرگزار رہوں گی کہ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کو اپنی رائے کے اظہار کے لئے منتخب کیا"۔
اس مضمون میں خاشقجی نے خبردار کیا ہے کہ مغربی ایشیا کی حکومتوں کے ہاتھوں میں میڈیا کو خاموش کرانے کی لگام ہے اور یہ کام تیزی سے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک میں اظہار رائے کی آزادی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ انہوں نے سعودی حکمرانوں کی مخالفت میں لکھنے والے ایک مشہور مصنف کو قید کی سزا دیئے جانے اور مصر ی حکومت کی طرف سے ایک اخبار پر پابندی لگائے جانے کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ عرب ممالک کے حکمراں اپنے شہریوں کو بیرونی دنیا کی خبروں سے بے خبر رکھنے کے لئے انٹرنیٹ خدمات کو بھی مسدود کرتے ہیں۔
خاشقجی نے لکھا ہے کہ ’’عرب ملکوں پر ’لوہے کا پردہ‘ پڑا ہوا ہے۔ یہ کسی باہری لوگوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ملک کے اندر اقتدار کے لئے برسرپیکار طاقتوں کی وجہ سے ایسا ہے‘‘۔
جمال خاشقجی نے اپنے مضامین کو انگریزی سے عربی زبان میں ترجمہ کئے جانے کے لئے واشنگٹن پوسٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ عرب ممالک کو مغربی ممالک کی جمہوریت کے بارے میں جاننا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے چوتھے ستون پر حملے اور صحافیوں کے ساتھ ناانصافی کے واقعات پر عالمی برادری میں کوئی آواز نہیں اٹھائی جا رہی ہے۔ اگر تھوڑا بہت کچھ ہنگامہ ہوتا بھی ہے تو وقت کے ساتھ دب جاتا ہے۔ یہ روایت افسوسناک ہے۔
Published: undefined
خاشقجی نے 1987 اور 1995 میں طالبان کے ليڈر اسامہ بن لادن کا انٹرویو لیا تھا اور اس کے بعد وہ کافی سرخیوں میں آئے تھے۔
وہ اپنی ترک منگیتر سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہیں کاغذی کارروائی کرنی تھی جس کے لئے وہ 28 ستمبر کو ترکی میں واقع سعودی سفارت خانہ گئے تھے۔ سفارت خانے کی جانب سے انہیں دوبارہ 2 اکتوبر کو بلایا گیا تھا۔ 2 اکتوبر کو وہ اپنی منگیتر کے ساتھ سفارت خانہ پہنچے تھے۔ لیکن منگیتر سفارت خانے کے باہر ان کا انتظار کرتی رہی، اور وہ سفارت خانے سے باہر ہی نہیں نکلے۔
اس واقعہ پر سعودی اور ترکی دونوں میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ ترک حکام کا الزام ہے کہ سعودی عرب نے سفارت خانے میں ہی خاشقجی کو قتل کردیا ہے۔ انہوں نے اپنے پاس کچھ ویڈیو اور آڈیو ریکارڈنگ ہونے کا دعوی بھی کیا ہے۔ دوسری طرف، سعودی عرب نے اس واقعہ میں اپنا کسی طرح کا ہاتھ ہونے کی تردید کی ہے اور تحقیقات کاروں کو اندر داخل ہونے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ جمعرات کی صبح سویرے ترک کرائم برانچ کی ٹیم کے حکام کو سعودی قنصل خانے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
ترکی کے اخبار 'عینی شفق' نے اپنی رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب کے سفارتخانے میں خاشقجی کو ہراساں کیا گیا۔ پوچھ گچھ کے دوران ان کی انگلیاں کاٹ دی گئیں اور اس کے بعد ان کا سر قلم کر دیا گیا۔ اخبار نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ اس سلسلے میں اس کے پاس آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے۔ تاہم، اس کو ابھی عام نہيں کیا گیا ہے۔ بدھ کے روز امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ "اس طرح کی کوئی ریکارڈنگ موجود ہے، تو اسے امریکہ کو دیا جائے۔
امریکہ نے پہلے کہا تھا کہ خاشقجی کی موت کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی ، مگر اب اس کے موقف میں بھی تبدیلی آنے لگی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined