ترکی کے صدر رجب طیب اردگان، جنہوں نے اپنے ملک پر 20 سال سے زیادہ مضبوط گرفت کے ساتھ حکمرانی کی ہے اس مرتبہ سخت انتخابی دوڑ میں گھرے ہوئے ہیں اور ان کا مقابلہ ان کے مرکزی حریف کمال کلیک دار اوغلو کے ساتھ ہے۔
Published: undefined
نتائج، چاہے ابھی آئیں یا ووٹنگ کے دوسرے مرحلے کے بعد دو ہفتوں میں آئیں، اس بات کا تعین کریں گے کے ترکی کی سیاسی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں رہتی ہے ۔ کیا ترکی کے عوام اردگان پر ہی اپنا اعتماد ظاہر کرتے ہیں یا ان کے حریف کمال کلیک دار اوغلو پر کرتے ہیں۔ خبروں کے مطابق انقرہ میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اردگان نے کہا کہ وہ اب بھی جیت سکتے ہیں لیکن اگر دوڑ میں رن آف ووٹ ہوا تو وہ قوم کے فیصلے کا احترام کریں گے۔
Published: undefined
صدر اردگان نے کہا کہ "ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ انتخابات پہلے راؤنڈ میں ختم ہون گے یا نہیں۔ اگر ہماری قوم نے دوسرے راؤنڈ کے لیے انتخاب کیا ہے، تو یہ بھی خوش آئند ہے۔‘‘ واضح رہے ابھی بیرون ملک مقیم ترک شہریوں کے ووٹوں کی گنتی باقی ہے۔ انہوں نے 2018 میں بیرون ملک مقیم ووٹوں کا 60 فیصد حصہ حاصل کیا تھا۔
Published: undefined
اس سال کے انتخابات زیادہ تر قومی مسائل جیسے کہ معیشت، شہری حقوق اور فروری میں آنے والے زلزلے پر مرکوز تھے جس میں 50,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن مغربی ممالک اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی اردگان کی معیشت کی بعض اوقات غلط قیادت اور ترکی کو بین الاقوامی مذاکرات کے مرکز میں رکھنے کی کوششوں کی وجہ سے موجودہ نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔
Published: undefined
سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو کے مطابق، اردگان کو 49.6 فیصد ووٹ ملے، جب کہ چھ جماعتی اتحاد کے امیدوار کمال کلیک دار اوغلو کو 44.7 فیصد ووٹ ملے۔ ترکی کی انتخابی اتھارٹی، سپریم الیکٹورل بورڈ نے کہا کہ وہ مقابلہ کرنے والی سیاسی جماعتوں کو "فوری طور پر" نمبر فراہم کر رہے ہیں اور گنتی مکمل ہونے اور حتمی ہونے کے بعد نتائج کو عام کر دیں گے۔
Published: undefined
بورڈ کے مطابق، 3.4 ملین اہل بیرون ملک مقیم ووٹرز میں سے زیادہ تر بیلٹس کو اب بھی کھولنے کی ضرورت ہے، اور 28 مئی کو رن آف الیکشن کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔ 69 سالہ اردگان نے 2003 سے ترکی میں وزیر اعظم یا صدر کے طور پر حکومت کی ہے۔
Published: undefined
جب کہ اردگان کو امید ہے کہ وہ پانچ سالہ میعاد جیتیں گے جو انہیں اپنی تیسری دہائی میں اچھی طرح لے جائے گا کیونکہ ترکی کے رہنما، 74 سالہ کمال کلیک دار اوغلو نے آزادی اظہار اور جمہوری پسپائی کی دوسری شکلوں کے خلاف کریک ڈاؤن کو روکنے کے ساتھ ساتھ معیشت کو ٹھیک کرنے کے وعدوں پر مہم چلائی۔
Published: undefined
ووٹروں نے ترکی کی 600 نشستوں والی پارلیمنٹ کو پُر کرنے کے لیے قانون سازوں کو بھی منتخب کیا، جس نے 2017 میں ملک کے نظامِ حکمرانی کو تبدیل کرنے کے لیے ریفرنڈم کے بعد اپنی قانون سازی کی زیادہ تر طاقت کھو دی تھی۔ انادولو نیوز ایجنسی نے کہا کہ اردگان کی حکمران جماعت کا اتحاد 50 فیصد سے نیچے منڈلا رہا ہے، جب کہ کمال کلیک دار اوغلو کے نیشن الائنس کے پاس تقریباً 35 فیصد اور کرد نواز پارٹی کے پاس 10 فیصد سے زیادہ ووٹ ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز