امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے باور کرایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ضرورت پڑنے پر ترکی کے خلاف طاقت کے استعمال کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ پومپیو نے امریکی نیٹ ورکCNBC کو دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ واشنگٹن جنگ پر امن کو ترجیح دیتا ہے تاہم اگر فوجی کارروائی کی ضرورت پڑی تو ٹرم ایسا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
Published: undefined
اس سے قبل شام کے معاملے پر امریکی صدر نے پیر کے روز کہا تھا کہ شمالی شام میں جنگ بندی کی کچھ معمولی خلاف ورزیوں کے باوجود اس پرعمل درامد کیا جا رہا ہے۔ جنگ بندی معاہدے کے خاتمے سے ایک دن قبل انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ ترکی معاہدے کی پاسداری کرے گا۔ اس لیے وہ ترکی کو مزید پابندیوں کی دھمکی نہیں دینا چاہتے۔ امریکی صدر نے کہا کہ اگر ترکی غلط بتاؤ کا مظاہرہ کرتا ہے تو امریکہ اپنی مصنوعات پر محصولات اور پابندیاں عائد کرے گا۔
Published: undefined
ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کے ایک اجلاس کے دوران وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ نے کُردوں سے ان کے تحفظ کے لیے400 سال خطے میں رہنے کا کبھی بھی کوئی عہد نہیں کیا ہے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ شام میں امریکی فوج کو نہیں رکھنا چاہتے۔ ٹرمپ کے مطابق امریکی فوجیوں کی محدود تعداد شام میں رہے گی۔ ان میں بعض کو اردن کے ساتھ سرحد پر تعینات کیا جائے گا جب کہ دیگر بعض آئل فیلڈز کی حفاظت کریں گے۔
Published: undefined
ادھر ترکی کے عسکری ذرائع نے پیر کے روز بتایا کہ انقرہ اور واشنگٹن کے بیچ 120 گھنٹوں کے لیے طے پائی جانے والی فائر بندی منگل کے روز شام کے مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے اختتام پذیر ہو رہی ہے۔ اس فائر بندی کا مقصد یہ تھا کہ کرد جنگجو شمال مشرقی شام میں اپنے ٹھکانوں کو خالی کر کے چلے جائیں۔
Published: undefined
ذرائع کے مطابق مذکورہ فائر بندی کا آغاز جمعرات کی رات مقامی وقت کے مطابق 10 بجے ہوا تھا۔ ذرائع نے باور کرایا کہ ترکی شام کے ساتھ اپنی سرحد پر جس "سیف زون" کے قیام کا ارادہ رکھتا ہے ، پہلے مرحلے میں اس کی لمبائی تل ابیض سے راس العین تک 120 کلو میٹر ہو گی۔ بعد ازاں توسیع کے ذریعے اس کو 444 کلو میٹر تک پھیلا دیا جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز
تصویر سوشل میڈیا