کابل: مشرقی افغانستان میں طالبان کے حملے میں 14 افغان فوجی ہلاک ہو گئے جبکہ افغان حکام کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی سیز فائر کے سلسلے میں طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ طالبان نے پکتیا صوبے میں کیے گئے اس حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے اور اسے ایک دفاعی حملہ قرار دیا ہے البتہ انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
Published: undefined
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گزشتہ رات طالبانیوں نے حال ہی میں صوبہ پکتیا کے ضلع داندے پتن میں تعمیر دشمنوں کی چوکیوں پر حملے کیے، دشمن ان دنوں اپنی حکمرانی کو طالبان علاقوں میں توسیع دینے کے لئے کوشاں ہے۔ افغان حکام نے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے لیکن ضلع داندے پتن کے گورنر عید محمد احمدزئی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ حملے میں سیکورٹی فورسز کے 15 اہلکار اور 20 طالبان مارے گئے ہیں۔ افغانستان نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر آفس کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا کہ بے ترتیب جھڑپوں کے علاوہ عید کے تین دن بعد سیز فائر کا احترام کیا گیا جہاں اس سیز فائر کا خاتمہ منگل کو ہو گیا تھا۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ سیز فائر ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لئے بہترین تعاون درکار ہوتا ہے اور ہم نے یہ کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ طالبان نے بدھ کو حکومت پر فضائی حملے کا الزام عائد کیا تھا جس میں کئی شہری ہلاک ہو گئے تھے البتہ حکومت کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف طالبانی تھے۔ دونوں فریقین ہی مکمل طور پر جنگ پر آمادہ نظر نہیں آتے اور چند اکا دکا جھڑپوں کے باوجود عیدالفطر پر شروع ہونے والا سیز فائر اب بھی جاری ہے۔ ادھر طالبان اور افغان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے گفتگو کے لئے طالبان کا 5 رکنی وفد کابل میں موجود ہے۔
Published: undefined
یاد رہے کہ رواں سال 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان افغان امن معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت کابل انتظامیہ اب تک 2 ہزار طالبان قیدی رہا کر چکی ہے جبکہ طالبان نے 347 قیدیوں کو رہا کیا ہے۔امن معاہدے کے تحت افغان حکومت نے 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنا ہے جبکہ طالبان ایک ہزار افغان فوجی اور پولیس اہلکاروں کو رہا کرنے کے پابند ہیں۔ اس معاہدے کے تحت امریکی فوجی واپس اپنے وطن لوٹ جائیں گے اور امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ اختتام کو پہنچے گی۔
Published: undefined
اس معاہدے میں طالبان اور افغان حکومت سے مذاکرات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ پرامن انداز میں مستقبل کا فیصلہ کیا جا سکے لیکن افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان جاری تنازع کے سبب مذاکراتی عمل تعطل کا شکار تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined