سری لنکا کو 1948 میں آ زادی ملی تھی اور وہ اپنی آزادی کے بعد سب سے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ معاشی بحران کی وجہ سے سری لنکا میں اب سیاسی بحران بھی بڑھتا جا رہا ہے، وہاں پر حکومت کے وزراء نے اجتماعی استعفیٰ دے دیا ہے۔ لوگوں کو روزمرہ کی چیزیں بھی نہیں مل رہی ہیں۔ اگر مل بھی رہی ہیں تو کئی گنا مہنگی قیمتوں پر دستیاب ہیں ہے۔
Published: undefined
سری لنکا میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً ختم ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ ضروری چیزیں درآمد کرنے سے قاصر ہے۔ ملک میں غذائی اجناس، چینی، دودھ پاؤڈر، سبزیوں سے لے کر ادویات تک کی شدید قلت ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کے لیے لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ اس لیے پٹرول پمپوں پر فوج کو تعینات کرنا پڑا ہے۔ ملک میں 13 گھنٹے بجلی کی کٹوتی ہو رہی ہے۔ بسوں کو چلانے کے لیے ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔
Published: undefined
منگل کو صدر گوٹابایا راج پکشے نے سری لنکا میں ایمرجنسی کے اعلان کے بعد پہلی بار پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا۔ لیکن اس اجلاس میں اپوزیشن تو دور کی بات ہے خود حکومت کے کئی اتحادی اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ حکمراں سری لنکا پوڈوجانا پیرامونا (SLPP) اتحاد نے مہندا راج پکشے کی قیادت میں 2020 کے عام انتخابات میں 150 نشستیں جیتی تھیں۔ اس کے بعد، سابق صدر کی قیادت میں سری لنکا فریڈم پارٹی (SLFP) کے ناراض اراکین نے پارلیمنٹ میں اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے حکمراں سری لنکا پوڈوجانا پیرامونا اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
Published: undefined
اطلاعات کے مطابق صدر گوٹابایا راج پکشے کسی بھی حالت میں استعفیٰ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اور انہوں نے ملک میں ایمرجنسی بھی لگا دی تھی۔ بچی کھچی حکومت راج پکشے کے ایمرجنسی نافذ کرنے کے فیصلے کا دفاع کر رہی تھی، جسے بعد میں واپس لے لیا گیا۔ راج پکشے کے وفادار وزیر کا کہنا ہے کہ صدر کے مستعفی ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ اس عہدے کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔
Published: undefined
سری لنکا کی پارلیمنٹ میں کل ارکان کی تعداد 225 ہے۔ ایسے میں کسی بھی اتحاد یا پارٹی کو اکثریت کے لیے 113 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ سری لنکا کی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکمران اتحاد کے کم از کم 41 ارکان نے حمایت واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ ایسے میں مہندا راج پکشے حکومت کو 109 ارکان کی حمایت حاصل ہے جو کہ اکثریت سے چار کم ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined