ہندوستان میں کورونا کے بڑھتے قہر کے درمیان ایک طرف جہاں نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کے ایک بیان نے دہلی کے باشندوں کو خوفزدہ کر دیا ہے، وہیں ایک سائنسداں کے ذریعہ ہندوستان کے تعلق سے کیا جا رہا دعویٰ دھیرے دھیرے سچ ثابت ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے جو کہ فکر انگیز ہے۔ دراصل منیش سسودیا نے 9 جون کو میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جولائی کے آخر تک دہلی میں کورونا انفیکشن والے مریضوں کی تعداد 5.5 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے، لیکن ہندوستان کی بات کریں تو سائنسداں بھرمر مکھرجی کا کہنا ہے کہ جولائی کے آخر تک کورونا انفیکشن کے کیسز 21 لاکھ تک پہنچ سکتے ہیں۔
Published: undefined
اس وقت ہندوستان کورونا انفیکشن کے معاملے میں دنیا میں چھٹے مقام پر اور ایشیا میں پہلے مقام پر ہے۔ چونکہ ہندوستان میں ابھی کورونا انفیکشن کے معاملے روزانہ ریکارڈ قائم کر رہے ہیں، اس لیے طبی اور سائنسی حلقہ میں کافی تشویش ہے۔ یونیورسٹی آف مشیگن اور جان ہاپکنز یونیورسٹی نے کورونا ماڈل کے ذریعہ متنبہ کیا ہے کہ ہندوستان میں جولائی کے پہلے ہفتے تک 21 لاکھ لوگ انفیکشن کے شکار ہو سکتے ہیں۔ یونیورسٹی آف مشیگن میں بایو اسٹیٹسٹکس اور وبائی امراض ماہر پروفیسر بھرمر مکھرجی نے خبر رساں ایجنسی رائٹرس کو بتایا کہ انھوں نے ہندوستان کے لیے تیار کیے گئے ایک ماڈل کے ذریعہ پہلے ہی تنبیہ جاری کی تھی کہ ہندوستان میں حالات کافی سنگین ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے پروفیسر مکھرجی کی ٹیم نے ہی اپریل میں سب سے پہلے بتایا تھا کہ وسط مئی تک ہندوستان میں کورونا انفیکشن والے مریضوں کی تعداد 1 لاکھ سے زیادہ ہو جائے گی۔
Published: undefined
ایک ہندی نیوز پورٹل پر شائع خبر کے مطابق پروفیسر بھرمر مکھرجی کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں انفیکشن کے معاملوں کا بڑھنا ابھی کم نہیں ہوا ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہی ہندوستان میں کورونا انفیکشن کے معاملے ہر 13 دن میں دوگنے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کا لاک ڈاؤن سے متعلق پابندیوں میں نرمی مشکلیں بڑھا سکتا ہے۔ منگل کے روز ہی دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے بتایا کہ دہلی حکومت کا ایک اندازے کے مطابق ریاست میں 12 سے 13 دن میں کورونا کے کیسز ڈبل ہو رہے ہیں، ایسے میں بھرمر مکھرجی کا اندازہ سچ ثابت ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ مہاراشٹر نے تو کورونا انفیکشن کے معاملے میں چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جہاں ہر 10 دن میں کورونا کیسز دوگنے ہو رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined