نیویارک: ہند نژاد متنازعہ مصنف سلمان رشدی (75) پر امریکہ کے نیویارک شہر میں ایک پروگرام کے دوران چاقو سے جان لیوا حملہ کیا گیا۔ نیویارک پولیس کے مطابق رشدی پر اس وقت حملہ کیا گیا جب ان کا تعارف کرایا جا رہا تھا، اسی وقت ایک حملہ آور اسٹیج کی طرف دوڑا اور ان پر چاقو سے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں انٹرویو لینے والا بھی زخمی ہو گیا۔ حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
Published: undefined
بی بی سی اردو کے مطابق حملہ آور کی شناخت ہادی متار کے طور پر کی گئی ہے اور اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ نیو جرسی کے علاقے فیئر ویؤ سے تعلق رکھنے والے ہادی متار کی عمر 24 سال ہے۔
پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ 12 اگست کو مقامی وقت کے مطابق 11 بجے کے قریب ایک مشتبہ شخص اسٹیج کی طرف دوڑا اور رشدی اور ان کے انٹرویو لینے والے پر حملہ کیا۔ رشدی کی گردن پر چوٹ آئی ہے۔ انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے قریبی اسپتال لے جایا گیا۔ حملے میں انٹرویو لینے والا بھی زخمی ہوا ہے۔
Published: undefined
رشدی مغربی نیو یارک میں چوٹاکوا انسٹی ٹیوٹ کے ایک اجلاس میں لیکچر دینے جا رہے تھے، جہاں ان کا تعارف کرایا جا رہا تھا کہ ایک شخص نے ان پر چاقوسے حملہ کردیا۔ وہاں موجود لوگوں نے حملہ آور کو روک لیا لیکن تب تک رشدی زمین پر گر چکے تھے۔واقعے کی ایک تصویر میں نظر آ رہا ہے کہ رشدی فرش پر پیٹھ کے بل گرے ہوئے ہیں اور پانچ چھ لوگ انہیں اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رشدی 1980 کی دہائی میں اپنی ایک کتاب سیٹنک ورسیز (آیاتِ شیطانی) کے تعلق سے تنازعات میں آئے تھے۔ ان کی متنازعہ کتاب پر ہندوستان میں بھی پابندی ہے۔ رشدی انگریزی میں لکھتے ہیں اور لندن میں رہتے ہیں۔
Published: undefined
ہند نژاد ناول نگار نے 1981 میں 'مڈ نائٹ چلڈرن' سے شہرت حاصل کی۔ صرف برطانیہ میں اس کی دس لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ 1988 میں رشدی کی چوتھی کتاب دی سیٹینک ورسیز شائع ہوئی۔ اس ناول سے کچھ مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا، جنہوں نے اس کے مندرجات کو توہین رسالت قرار دیا۔
پوری دنیا میں احتجاج ہوا اور اس کتاب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔ سنسر شپ اور کتاب جلانے کے خلاف بھی کئی مظاہرے ہوئے۔ کتاب کی اشاعت کے ایک سال بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی نے رشدی کے خلاف موت کا فتویٰ جاری کیا۔
فتویٰ جاری ہونے کے بعد سب کچھ مختلف سطح پر چلا گیا۔ خمینی کے اس بیان کے بعد دنیا میں سفارتی بحران پیدا ہو گیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ہونے والے مظاہروں میں پوری دنیا میں 59 افراد مارے گئے تھے۔ مرنے والوں کی اس تعداد میں ناول کے مترجمین کی تعداد بھی شامل ہے۔ جان سے مارنے کی دھمکیوں کی وجہ سے سلمان رشدی خود نو سال تک روپوش رہے۔
(یو این آئی ان پٹ کے ساتھ)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز