روسی صدر ولادی میر پوتین نے کہا ہے کہ ان کی ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن سے بات چیت کے شام کے لیے ’’یادگار‘‘ نتائج برآمد ہوئے ہیں لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا ہے کہ یہ اہم نتائج کیا ہیں۔
ولادی میر پوتین سے ترک صدر طیب ایردوآن نے روس کے سیاحتی مقام سوچی میں منگل کے روز ملاقات کی۔ انھوں نے شام کی صورت حال اور وہاں ترک فوج کی کردوں کے خلاف حالیہ کارروائی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔ اس کے بعد صدر پوتین نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اس ملاقات کی تفصیل سے آگاہ کریں گے اور ہم دونوں کے درمیان جو کچھ اتفاق رائے طے پایا ہے،اس کے بارے میں بھی بتائیں گے۔ روسی صدر کے بہ قول صدرایردوآن نے انھیں شام کے شمال مشرقی علاقے میں ترک فوج کے آپریشن کی وضاحت کی ہے۔
Published: undefined
ان دونوں لیڈروں کی مختصر پریس کانفرنس کے بعد ترکی اور روس کے وزرائے خارجہ نے صحافیوں سے گفتگو کی ہے۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے بتایا کہ صدر پوتین اور ایردوآن دونوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ روس 1998ء میں ترکی اور شام کے درمیان طے شدہ عدنہ سکیورٹی سمجھوتے پر عمل درآمد کرائے گا۔
Published: undefined
روسی وزیر خارجہ نے مزید بتایا کہ ’’تمام کرد جنگجوؤں اور ان کے ہتھیاروں کو شام کے سرحدی شہر منبج اور تل رفعت سے ہٹا دیا جائے گا۔روسی اور ترک فوجی شام میں سرحد سے دس کلومیٹر کے اندرعلاقے میں مشترکہ گشت کریں گے۔وہ سمجھوتے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے صورت حال کی بھی مشترکہ طور پر نگرانی کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب کردوں کے پاس اس علاقے سے انخلا کے لیے 150 گھنٹے کا وقت ہوگا۔
Published: undefined
دریں اثناء آج ہی کرد فورسز نے کہا ہے کہ انھوں نے شام کے ترکی کے ساتھ واقع سرحدی علاقے میں مجوزہ محفوظ زون کو خالی کردیا ہے۔ شام کے شمال مشرقی علاقے میں کرد فورسز کے کمانڈر نے امریکا کو مطلع کیا ہے کہ انھوں نے جنگ بندی سمجھوتے کے تمام تقاضوں کو پورا کردیا ہے۔تاہم ترکی نے فوری طور پر ان کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی ہے۔
Published: undefined
ترکی نے نو اکتوبر کو شام کے سرحدی علاقے میں امریکا اور یورپ کی حمایت یافتہ کرد فورسز کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔اس کا مقصد کرد ملیشیا کوشام کے ترکی کے ساتھ واقع سرحدی علاقے سے پیچھے ہٹانا تھا۔وہاں ترکی ایک محفوظ زون قائم کرنا چاہتا ہے۔
Published: undefined
گذشتہ جمعرات کو امریکا اور ترکی کے درمیان اس کارروائی کے خاتمے کے لیے جنگ بندی کا ایک سمجھوتا طے پایا تھا اور ترکی کی مسلح افواج نے کرد ملیشیا کے خلاف پانچ روز کے لیے جنگی کارروائیاں روک دی تھیں۔ اس کے بعد سے علاقے میں صورت حال قدرے بہتر ہے۔ البتہ اس عرصے میں بعض جگہوں پرمتحارب فورسز میں وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوتی رہی ہیں یا انھوں نے کہیں کہیں ایک دوسرے پر گولہ باری کی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز