عالمی خبریں

پاکستان: تیس برسوں سے جذام اور تپ دق کے خلاف جنگ میں مصروف جرمن ڈاکٹر

گزشتہ 3 عشروں سے زائد عرصے سے یہ 65 سالہ جرمن ڈاکٹر پاکستان میں کوڑھ اور تپ دق کے مریضوں کا علاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ہزاروں غریب اور لاچار مریضوں کے لیے وہ کسی ’مسیحا‘ سے کم نہیں ہیں

پاکستان: تیس برسوں سے جذام اور تپ دق کے خلاف جنگ میں مصروف جرمن ڈاکٹر
پاکستان: تیس برسوں سے جذام اور تپ دق کے خلاف جنگ میں مصروف جرمن ڈاکٹر 

جرمن ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر گزشتہ 33 برسوں سے پاکستان میں خدمات انجام دے رہی ہیں اور راولپنڈی میں واقع ان کے کلینک میں ہر روز ہی مریضوں کا رش رہتا ہے۔ جرمن شہر ہیرسبروک سے تعلق رکھنے والی یہ ڈاکٹر کوڑھ، تپ دق اور جلدی بیماریوں کا علاج کرتی ہیں۔ انہوں نے مشہور شہر ہائیڈل برگ سے امراض نسواں کی ڈگری حاصل کی اور پھر کچھ دیر ایتھوپیا میں کام کیا۔

Published: undefined

وہ بتاتی ہیں کہ پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ ان کے لیے مشکل نہیں تھا، کیوں کہ وہ صرف مریضوں کی مدد کرنا چاہتی تھیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو مسکراتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''مجھ سے ایک راہبہ دوست نے درخواست کی کہ ادھر پاکستان میں آ جاؤ اور پھر میں شوق سے آ بھی گئی۔‘‘

Published: undefined

راولپنڈی کا یہ ہسپتال، جو اصل میں نوآبادیاتی دور میں بنایا گیا تھا، بیماروں کے لیے آرام کی جگہ ہے اور یہاں ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر کو 'سسٹر کرس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ہسپتال کے اندر آئیں تو یہ احساس بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے کہ یہاں کی سرسبز دیواروں کے پیچھے ایک بہت بڑا شہر اور سڑکوں پر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ یہاں نہ تو ٹریفک کا شور پہنچتا ہے اور نہ ہی کسی گاڑن کا ہارن سنائی دیتا ہے۔

Published: undefined

سالانہ ایک لاکھ پچاس ہزار مریض

Published: undefined

اس کلینک میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ مریض اپنے علاج کے لیے آتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ہسپتال جرمنی کی جذام اور تپ دق سے متعلق ایک امدادی تنظیم میسیرور کے تعاون اور مقامی عطیات سے چلایا جا رہا ہے۔ پاکستان آنے کے کچھ ہی عرصے بعد کرسٹینے شموٹسر نے اس ہسپتال کی سربراہی سنبھال لی تھی۔ ان کی کئی عشروں پر محیط خدمات کے پیش نظر گزشتہ برس دسمبر میں جرمن حکومت نے انہیں بُنڈس فیرڈینسٹ کروئس (جرمن آرڈر آف میرٹ ایوارڈ) سے نوازا تھا۔

Published: undefined

اس ہسپتال میں کچھ جذام کے مریض بھی موجود ہیں لیکن بنیادی طور پر یہاں تپ دق (ٹی بی) اور جلدی امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔ یہاں پر آنکھوں کے علاج کے لیے بھی ایک شعبہ قائم کیا گیا ہے اور باقاعدگی کے ساتھ پاکستانی دیہات میں جا کر مریضوں کا علاج کرنا بھی کرسٹینے شموٹسر کے معمولات کا حصہ ہے۔

Published: undefined

چوبیس مارچ کو انسداد تپ دق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کرسٹینے شموٹسر کا کہنا تھا، ''ٹی بی نظام صحت کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ علاج کے باوجود نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں یہ بیماری بہت ہی زیادہ ہلاکتوں کا سبب بن رہی ہے۔‘‘

Published: undefined

پاکستان میں سالانہ تقریبا پانچ لاکھ افراد اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر بتاتی ہیں، ''میں حیران رہ جاتی ہوں، ابھی تک ایسے مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے، کسی گھر میں کوئی ایک مریض ٹی بی کا سامنے آئے تو لوگ ان گھر والوں سے کترانے لگتے ہیں۔ ملک کے زیادہ تر حصوں میں اچھی ادویات کی فراہمی کا نظام نہیں ہے۔ غربت اور دیگر حالات بھی ایسی وجوہات ہیں کہ لوگ ٹیسٹ نہیں کروا پاتے۔‘‘

Published: undefined

ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض اوقات گھر والوں کو علامات کا علم ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ معاشرتی خوف سے اس بیماری کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔

Published: undefined

پاکستان سے محبت

Published: undefined

ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر گزشتہ تینتیس برسوں میں ان گنت مریضوں کا علاج کر چکی ہیں اور ایسا کرنے کے لیے مسیحی مذہب بھی ان کے لیے ایک مشعل راہ ثابت ہوا۔ ان کا کہنا تھا، ''جب آپ کسی دوسرے ملک میں یا دوسری ثقافت میں جاتے ہیں تو آپ کو کھلے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، چیزوں کو ویسے ہی دیکھنا چاہیے، جیسی وہ ہیں۔‘‘

Published: undefined

بہترین اردو بولنے والی اس جرمن ڈاکٹر کا مزید کہنا تھا، ''دوسری طرف انسان کو اپنی جڑوں اور بنیادی اقدار کو نہیں بھولنا چاہیے۔‘‘ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور مسیحی اقلیت میں ہے۔

Published: undefined

سسٹر کرس یعنی ڈاکٹر کرسٹینے کا اس مسلم ملک میں رہنے کا تجربہ کیسا رہا؟ اس حوالے سے وہ کہتی ہیں، ''میں ہر سال جرمنی جاتے ہوئے سوچتی ہوں کہ اب مجھے پاکستان چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن اس ملک کی ثقافت کی ایک بہت بڑی طاقت احترام اور یہاں کی مہمان نوازی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہر کسی کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا، جو ایسی نہیں ہوتی، جیسی وہ چاہتا ہے۔ لیکن مجھے جب بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، تو ایک دن یا ایک ہفتے بعد یہی خیال آیا، کہ سب ٹھیک ہے، آگے کام کرتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

ا ا / ش ح (ڈی پی اے)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined