جرمن چانسلر اولاف شولس نے ایران میں پولیس کی حراست میں مہسا امینی نامی خاتون کی ہلاکت کی مذمت کی ہے۔ 22 سالہ مہسا امینی کو مبینہ طور پر ’’غیر مناسب‘‘ طریقے سے اسکارف پہننے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس حراست کے دوران وہ کومہ میں چلی گئیں اور بعد ازاں ہسپتال میں ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔
Published: undefined
اولاف شولس نے مہسا امینی کی موت کو ’’خوفناک‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں احتجاج کے دوران اس ’’جرات مند خاتون‘‘ کی ہلاکت پر بہت ’’افسوس‘‘ ہے۔ اس دوران ایران میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں درجنوں مظاہرین کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
جرمن چانسلر کا کہنا تھا، ’’اس بات سے قطع نظر کہ دنیا کی کوئی بھی جگہ ہو، خواتین کو اپنی زندگیوں کا خطرہ محسوس کیے بغیر، ایک خود مختار زندگی جینے کے قابل ہونا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن ہیبسٹرائٹ نے اپنے ایک بیان میں ’’امینی کی موت کی فوری اور شفاف تحقیقات‘‘ کا مطالبہ کیا۔ جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر برلن یورپی یونین کے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ نقطہ نظر پر بات کر رہا ہے، تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
Published: undefined
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک غیر سرکاری تنظیم نے جمعہ 23 ستمبر کو بتایا کہ اخلاقی پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں پر ایرانی سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں اب تک کم از کم 50 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
Published: undefined
اوسلو میں قائم ’ایران ہیومن رائٹس‘ (آئی ایچ آر) کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں اضافہ اس وقت ہوا جب جمعرات کی رات شمالی صوبے گیلان کے رضوان شہر میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے چھ افراد ہلاک ہوئے۔ شمالی ایران کے بابول اور امول نامی شہروں میں بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
اس تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ ایک ہفتے قبل شروع ہونے مظاہرے اب تقریباﹰ 80 شہروں تک پھیل چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے شمالی کردستان کے علاقے میں ہونے والی اموات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ امینی کا تعلق اسی صوبے سے تھا۔
Published: undefined
آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری مغدّام نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اب تک کم از کم 50 افراد مارے جا چکے ہیں، اور لوگوں نے اب بھی اپنے بنیادی حقوق اور وقار کے لیے احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’عالمی برادری کو ہمارے دور کی ایک انتہائی جابرانہ حکومت کے خلاف ایرانی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔‘‘ لیکن ایرانی حکام نے جھڑپوں میں سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد کم از کم 17 بتائی ہے، جن میں پانچ سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
امینی کی موت کے خلاف جاری مظاہروں کے درمیان ہی ایران بھر میں ہزاروں افراد نے حکومت کی حمایت اور حجاب کے حق میں بھی مظاہرے کیے ہیں۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی مہر نے جوابی مظاہرین کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ’’مذہب کے خلاف سازشیں اور توہین کرنے والوں کی مذمت کرنے والے ایرانی عوام کا عظیم مظاہرہ آج ہوا۔‘‘
Published: undefined
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ایرانی فوج نے ’’غیر قانونی اجتماعات‘‘ میں شرکت کے خلاف خبردار کیا ہے اور خفیہ سروس نے کہا ہے کہ وہ ’’دشمنوں کو اس صورت حال کو استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے گی۔‘‘
جمعے کے روز ہی ایرانی حکام نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام اور واٹس ایپ تک رسائی کو بھی روک دیا۔ سرکاری ٹی وی کے مطابق پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد 26 تک ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined