پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بظاہر کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی لیکن اگر ذرا غور کیا جائے تو کہیں نہ کہیں تبدیلی واضح ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھارت پالیسی اور سابق فوجی سربراہ راحیل شریف کی پالیسی میں بھی فرق واضح ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ راحیل شریف بھارت کے خلاف ایک جارہانہ رویہ کی پالیسی پر عمل پیرا تھے جبکہ جنرل باجوہ کی پالیسی جارہانہ نہیں ہے۔ پاکستان میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی کے تحت بات چیت کی جا رہی ہے کیونکہ باقاعدہ بات چیت کے دروازے بند ہیں۔ بیک چینل ڈپلومیسی کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
پالیسی کی تبدیلی کے دو شواہد واضح ہیں پہلا یہ کہ کلبھوشن کی 25دسمبر کو اسلام آباد میں ان کی بیوی اور والدہ سے ملاقات کروائی جا رہی ہے۔ یہ ملاقات بھارت کا مطالبہ تھا۔ لیکن پھر بھی جس طرح کروائی جا رہی ہے کہ وہ بتا رہی ہے کہ ضرور کہیں نہ کہیں بات چیت چل رہی ہے۔ ملاقات تو رسمی طور پر جیل میں کروائی جا نی چاہئے تھی۔ لیکن خصوصی اہتمام کے ساتھ ملاقات دفتر خارجہ میں چھٹی والے دن کروائی جا رہی ہے۔ جو بتا رہا ہے کہ پاکستان میں نرمی ہے۔بھارت کی خواہش پر خصوصی طور پر کلبھوشن کی والدہ کی بھی ملاقات کروائی جا رہی ہے حالانکہ ویانہ کنونشن کے تحت صرف بیگم کی ملاقات ہی ضروری ہے۔ کلبھوشن پر نرمی براہ راست پاکستان فوج کی پالیسی میں تبدیلی کا واضح ثبوت ہے۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں نے باہمی تعلقات کو اس سطح تک خراب کر لیا ہے کہ اب وہ کس حد تک بہتری چاہتے ہیں۔ پاکستان میں آئندہ سال انتخابات ہیں اور ایک جانے والی حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا کیا جوا کھیل سکتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان فوج بھی تعلقات نہ تو ایک حد سے زیادہ خراب کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی بہتر کرنا چاہتی ہے۔ تو پھر بیک چینل سے کیا بات ہو رہی ہے۔ خبر یہ ہے کہ حالات کو ٹھیک کرنے پر بات نہیں ہو رہی بلکہ حالات کو مزید خراب نہ ہونے دیا جائے پر بات ہو رہی ہے۔
افغانستان پر بات ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان کے گریٹ گیم میں پاکستان اور بھارت کا کوئی مشترکہ کردار نکل سکتا ہے۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ کم از کم افغانستان کی سطح پر پاک ۔بھارت امن ہو جائے اور جو’ پراکسی جنگ‘ اس وقت افغانستان میں جاری ہے وہ بند ہو جائے۔ تا ہم بھارت اس کے لئے ابھی تیار نہیں ہے۔لیکن بھارت کو منانے کے لئے گزشتہ تین ماہ میں پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے افغانستان اور ایران کے دورہ کئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان کے دورہ کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان برف پگھلی ہے۔ اور ایران سے بھی تناؤمیں کمی آئی ہے۔پاکستان کی کوشش ہے کہ بھارت سے تعلقات بہتر کرنے سے پہلے ایران اور افغانستان سے تعلقات بہتر کئے جائیں۔ بھارت سے تعلقات مزید خراب نہ ہوں تو کافی ہے۔ حالات کو کشیدگی سے دور رکھا جائے۔ اور ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے حالات نارمل کی طرف جائیں۔ کلبھوشن کی اہل خانہ سے ملاقات اس پالیسی کا پہلا قدم ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز