تائیوان کی صدر سائی اِنگ وین نے کہا ہے، ’’ہمیں امید ہے کہ بین الاقوامی برادری صورتحال کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے ہماری مدد کرے گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر خطرے میں گھری کسی جمہوری ریاست کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے یا اس کی مدد نہ کی جائے تو سوال پیدا ہے کہ اگلی باری کس ملک کی ہوگی۔ انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ کے ایک حالیہ بیان کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کی بھی اپیل کی۔
Published: undefined
شی جن پنگ نے ایک روز قبل کہا تھا کہ اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ تائیوان چین کا حصہ ہے اور دونوں جانب کے لوگ اتحاد کے متمنی ہیں۔ چینی صدر کے مطابق تائیوان کو چین میں شامل کرنے کے لیے طاقت بھی استعمال کی جا سکتی ہے لیکن پرامن اتحاد بڑی ترجیح ہو گا۔
Published: undefined
صدر سائی اِنگ وین نے چین پر تائیوان میں جمہوریت کو کمزور کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ ان کے بقول بیجنگ حکومت ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے یہ مہم چلا رہی ہے، ’’اس سے چین کے ارادوں کو پتا چلتا ہے کہ وہ تائیوان میں حکومت کے بجائے حزب اختلاف کی جماعتوں سے مذاکرات شروع کرنے کا خواہش مند ہے۔ اس کا مقصد جمہوری عمل کو تہہ و بالا کرتے ہوئے اور ہمارے معاشرے کو تقسیم کرنا ہے۔‘‘
Published: undefined
بیجنگ حکومت ’ون چائنا پالیسی‘ کے تحت تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتی ہے۔ تائیوان نے 1949ء میں خانہ جنگی کے بعد بیجنگ حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز