جنوبی جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کے دارالحکومت شٹٹ گارٹ میں پولیس کی طرف سے اتوار 29 دسمبر کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ واقعہ کل ہفتہ 28 دسمبر کو پیش آیا۔ اس واقعے میں پہلے تو یہ شخص ایک کار کریش کی وجہ بنا اور جب پولیس اہلکار موقع پر پہنچے، تو اس نے ان کو دھمکیاں دینے کے علاوہ ان پر ایک تلوار سے حملے کی کوشش بھی کی۔
Published: undefined
پولیس کے مطابق اس شخص نے اپنے ہاتھ میں جو تلوار اٹھا رکھی تھی، وہ 70 سینٹی میٹر (دو فٹ تین انچ) لمبی تھی اور وہ انتہائی مشتعل تھا۔ اس پر پولیس نے پہلے تو کالی مرچوں والا اسپرے استعمال کر کے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن جب یہ شخص پھر بھی دھمکیاں دینے اور پولیس اہلکاروں پر حملے کی کوششوں سے باز نہ آیا، تو پولیس نے اس پر فائرنگ کر دی۔
Published: undefined
اس شخص کو متعدد گولیاں لگی تھیں، جس کے بعد اسے علاج کے لیے ایک مقامی اسپتال پہنچا دیا گیا، جہاں وہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا۔ پولیس کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ چند ڈرائیوروں اور راہگیروں نے پولیس کو فون کر کے خبردار کر دیا تھا کہ ایک ڈرائیور بڑی لاپرواہی سے گاڑی چلا رہا تھا۔ تب یہ شخص ٹریفک کے لیے ایک سڑک پر بنائے گئے گول چکر پر معمول کی سمت کے برعکس ڈرائیونگ کرتے ہوئے دیگر ڈرائیوروں کے لیے خطرناک بھی ہو چکا تھا اور اس دوران اس کی گاڑی کی ایک سائیڈ ایک عمارت کی دیوار کے ساتھ گھسٹتی بھی چلی گئی تھی۔
Published: undefined
Published: undefined
پولیس کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس شخص کی عمر 32 برس تھی اور گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر اس کی 69 سالہ والدہ بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس شخص کے بارے میں پولیس کو شبہ ہے کہ شاید وہ ذہنی مسائل کا شکار تھا۔ اس کی گاڑی پولیس کی طرف سے روکے جانے سے پہلے سڑک کے کنارے بنے ایک اشتہاری ستون سے بھی ٹکرا گئی تھی۔
Published: undefined
پولیس اس گاڑی کو کریش کی جگہ سے کچھ دور روکنے میں کامیاب ہو گئی۔ وہیں پر اس گاڑی کے ڈرائیور نے تلوار پکڑے پولیس پر حملے کی کوشش کی تو وہ پولیس کی فائرنگ میں زخمی ہو گیا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس پورے واقعے میں مارے جانے والے ڈرائیور کی والدہ بھی زخمی ہو گئی۔ تاہم یہ بات غیر واضح ہے کہ اس خاتون کو آنے والے زخموں کی وجہ کیا تھی۔
Published: undefined
اس واقعے کے بعد جب اس شخص کے گھر کی تلاشی لی گئی، تو پولیس کو وہاں سے دو پیلٹ گنیں، ایک کمان اور مزید ایک تلوار بھی ملی۔ پولیس نے یہ بھی کہا ہے کہ بظاہر یہ شخص ایک نفسیاتی مریض تھا۔
Published: undefined
جرمنی میں پولیس کی طرف سے فرائض کی انجام دہی کے دوران فائرنگ کے واقعات بہت ہی کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق 2018ء میں پورے ملک میں پولیس فائرنگ میں مارے جانے والے افراد کی تعداد 11 رہی تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined