عالمی خبریں

افغانستان میں تباہ کن سیلاب

افغانستان میں طوفانی سیلاب نے حالیہ قدرتی آفات کے سلسلے میں اضافہ کیا ہے۔ یہ موسمیاتی بحران کی ایک مثال ہے، جو ان ممالک کو متاثر کر رہا ہے جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے لیے کم سے کم ذمہ دار ہیں

<div class="paragraphs"><p>افغانستان میں سیلاب / یو این آئی</p></div>

افغانستان میں سیلاب / یو این آئی

 
Zahir Khan

گزشتہ ہفتے شمالی افغانستان میں تباہی پھیلانے والے سیلاب میں کم از کم تین سو افراد ہلاک ہو گئے ۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے ایکس (ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا کہ افغانستان میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے، صوبہ بغلان میں تین سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ مکانات تباہ ہوئے ہیں۔ یہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران غیر معمولی شدید بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلابوں میں سے ایک ہے۔ ڈبلیو ایف پی اب زندہ بچ جانے والوں میں خوراک تقسیم کر رہا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی ایجنسی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے ایک بیان میں کہا کہ بدخشاں، غور، بغلان اور ہرات کے صوبوں میں شدید سیلاب آیا ہے، جس سے تقریباً دو ہزار گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔

Published: undefined

بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) افغانستان کے سات صوبوں میں پھیلے اس سیلاب میں پھنسے ہزاروں لوگوں کے لیے ہنگامی امداد فراہم کر رہی ہے۔ آئی آر سی افغانستان کی ڈائریکٹر سلمیٰ بن عیسٰی کے مطابق، افغانستان ابھی تک اس سال کے آغاز میں آنے والے زلزلوں کے ساتھ ساتھ مارچ میں آنے والے شدید سیلاب سے دوچار ہے، اور اب تازہ ترین سیلابوں نے ملک میں ایک بڑی انسانی ہنگامی صورتحال پیدا کر دی ہے ۔ لوگوں نے پورے خاندان کھو دیے ہیں، جبکہ ذریعہ معاش ختم ہو گیا ہے۔

Published: undefined

مقامی اسکول کے ہیڈ ماسٹر برکت اللہ نے سی این این کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں جب بغلان کے بلکا ضلع اور آس پاس کے علاقوں میں تیز ہوا چلی تو ہر چیز کو تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ، ایسا محسوس ہوا جیسے کچھ ناگوار ہونے والا ہے۔ مرئیت اتنی کم تھی کہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ پھر جمعہ کی نماز کے دوران بارش شروع ہو گئی – مقامی لوگوں کے لیے یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ ان کے مطابق پہاڑی علاقے میں اکثر اتنی زیادہ بارش نہیں ہوتی۔ یہاں تقریباً 10 ہزار لوگ رہتے ہیں۔ جیسے جیسے بارش تیز ہوئی، اچانک صورتحال سنگین ہو گئی۔ لوگ پہاڑوں اور پہاڑیوں میں پناہ ڈھونڈتے ہوئے اونچی زمین کی طرف بھاگ گئے۔ بدقسمتی سے، کچھ لوگ جو اپنے گھر چھوڑنے سے قاصر تھے سیلاب کے پانی کا شکار ہو گئے۔

Published: undefined

سیو دی چلڈرن نے ایک بیان میں کہا کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے 6 لاکھ لوگوں میں سے نصف سے زیادہ بچے ہیں۔ وہ بچوں اور ان کے خاندانوں کی مدد کے لیے موبائل ہیلتھ اور چائلڈ پروٹیکشن ٹیموں کے ساتھ ایک ’کلینک آن وہیل‘ بھیج رہے ہیں۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے ذریعے حاصل کی گئی ویڈیو میں سوگواروں کو بغلان صوبے میں میت کو دفن کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ گلبدین نامی ایک شخص نے اپنے خاندان کے پانچ افراد، دو بیٹے، دو بیٹیاں اور ان کی والدہ کو اس تباہ کن سیلاب میں کھو دیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سیلاب کے دوسری طرف کھڑے تھے، لیکن اپنے خاندان کی مدد نہ کر سکے، اور آخرکار سیلاب نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ صوبہ بغلان کے گاؤں لقائی کے رہائشی اپنے گھروں کے باہر اس کیچڑ کو صاف کر رہے ہیں جس نے ان کے مکانات کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا تھا۔

Published: undefined

افغانستان میں حکمراں طالبان نے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے ایکس (ٹوئٹر) پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والے شدید نقصان کا اعتراف کیا۔ مجاہد نے کہا، ’ افسوس کے ساتھ، ہمارے سینکڑوں ساتھی شہری ان تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے دم توڑ چکے ہیں، جب کہ کافی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ مزید برآں، سیلاب نے رہائشی املاک پر بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے، جس کے نتیجے میں کافی مالی نقصان ہوا ہے‘۔ مجاہد نے مزید کہا کہ طالبان نے وزارت داخلہ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی وزارت اور مقامی حکام کو پھنسے ہوئے لوگوں کو بچانے، لاشوں کو نکالنے اور زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے تمام دستیاب وسائل استعمال کرنے کا کام سونپا ہے۔

Published: undefined

خشک سالی اور بھوک سے سیلاب تک

افغانستان میں طوفانی سیلاب نے خطے میں حالیہ قدرتی آفات کے سلسلے میں اضافہ کیا ہے ۔ حکام کے مطابق، اپریل میں غیر موسمی بارشوں اور سیلاب سے افغانستان اور پاکستان میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ گزشتہ سال جولائی میں افغانستان میں سیلاب درجنوں کو بہا لے گیا تھا، اور اکتوبر میں افغانستان کے مغربی حصے میں آنے والے 6.3 شدت کے زلزلے سے ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔

Published: undefined

گزشتہ ہفتے آیا سیلاب افغانستان میں ایک ایسے علاقے میں جانوروں اور کھیتوں کو بہا لے گیا جو پہلے ہی خوراک کی شدید قلت کا سامنا کر رہا ہے۔ سیلاب کی زد میں آنے والے علاقے سخت گرمی کے بعد آئی خشک سالی سے پہلے ہی غذائی قلت کے خطرے سے دوچار تھے ۔ ڈبلیو ایف پی کے سربراہ ٹموتھی اینڈرسن کے مطابق، صورتحال پہلے ہی کافی سنگین تھی اور اب یہ تباہ کن ہے۔ حالانکہ مقامی لوگ اچانک سیلاب دیکھنے کی توقع رکھتے ہیں، لیکن اس سال، یہ بہت بدتر رہا ہے۔ زندہ بچ جانے والوں کے لیے، جو پہلے ہی غریب ترین لوگوں میں شامل تھے، ان کے گھروں اور ان کی زمین کا نقصان اور مویشی کھو دینا تباہ کن ہے کیونکہ یہی تو ان کا ذریعہ معاش ہے۔

Published: undefined

سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں تک سڑکوں کی رسائی سیلابی پانی کی وجہ سے کٹ گئی ہے، جس کی وجہ سے ڈبلیو ایف پی کو سامان بھیجنے کے لیے گدھوں کا استعمال کرنا پڑا۔ پہلے دن ، ڈبلیو ایف پی نے بچوں میں ہائی انرجی بسکٹ اور کھانا تقسیم کیا تھا۔ وہ مفت روٹی کی فراہمی کے لیے مقامی بیکریوں کی بھی مدد کر رہے ہیں۔ اگلے دنوں میں، ٹیمیں ایک ماہ کے لیے خاندانوں میں کھانا تقسیم کرنا شروع کر دیں گی - آگے کیا ہوگا یہ واضح نہیں ہے۔ اینڈرسن کے مطابق، اقوام متحدہ کے دیگر شراکت داروں کے ساتھ 17 مشترکہ تشخیصی ٹیمیں علاقے میں بھیجی جا رہی ہیں۔ ان ٹیموں کو سیلاب زدہ لوگوں اور ان کی رہائش اور بنیادی ڈھانچے پر پڑنے والے اثرات کا صحیح طریقے سے جائزہ لینے میں چار یا پانچ دن لگیں گے۔

Published: undefined

سیلاب کی شکل میں تازہ ترین قدرتی آفت افغانستان میں خشک سالی کے بعد آئی ہے، اور اسے موسمیاتی بحران کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو ان ممالک کو متاثر کر رہا ہے جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے لیے کم سے کم ذمہ دار ہیں۔ وہ کاربن کے خالص اخراج کرنے والے نہیں ہیں بلکہ ایک زرعی معاشرہ ہیں۔ لیکن وہ اس کا نقصان برداشت کر رہے ہیں ۔ حالیہ خشک مہینوں کے دوران، فصلوں کو برقرار رکھنے کے لیے ڈیموں اور آبپاشی کی نہروں میں بارش کا پانی حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن وہ کوششیں بیکار گئیں اور اب ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔

Published: undefined

اینڈرسن کے مطابق ضرورت صرف افغانستان میں نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ دنیا بہت بڑے، زیادہ شدید واقعات کے اثرات دیکھ رہی ہے، چاہے وہ خشک سالی ہویا بارشوں کا طوفان ۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کے مطابق حالیہ سیلاب افغانستان میں آب و ہوا کے بحران کے خطرے کی واضح یاد دہانی کراتا ہے۔ دوسری جانب ایکشن ایڈ انٹرنیشنل میں گلوبل کلائمیٹ جسٹس لیڈ، ٹریسا اینڈرسن نے کہا کہ آب و ہوا کا بحران بدستور اپنے سر پر کھڑا ہے۔ تازہ ترین واقعے کے ساتھ، افغانستان اس سال سیلاب سے نبرد آزما عالمی جنوبی ممالک کی ایک طویل فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined