ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن روس کا دورہ کر رہے ہیں جہاں وہ سوچی شہر میں اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتین سے ملاقات کریں گے۔ دونوں سربراہان کے درمیان شام کی صورت حال بالخصوص شمال مشرقی شام میں کردوں کے خلاف ترکی کا فوجی آپریشن زیر بحث آئے گا۔
Published: 22 Oct 2019, 8:00 PM IST
روس کے سفر سے قبل ایردوآن نے کہا کہ ’’اگر واشنگٹن نے اپنے کیے ہوئے وعدے پورے نہ کیے تو ترکی شام میں اپنا آپریشن زیادہ طاقت کے ساتھ آگے بڑھائے گا۔‘‘ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر کردوں نے اپنا انخلا مکمل نہ کیا تو ترکی کی فورسز دوبارہ حملہ شروع کر دیں گی۔ ایردوآن کا کہنا تھا کہ وہ ولادی میر پوتین کے ساتھ اس امر پر بات چیت کریں گے کہ شام کی آئین ساز کمیٹی کی نمایاں پیش رفت کو کس طرح یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ شامی حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں سے کردوں کے انخلا کو بھی زیر بحث لائیں گے۔
Published: 22 Oct 2019, 8:00 PM IST
اس سے قبل ایردوآن نے فرانس کے صدر عمانوئل ماکروں کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں شام میں فائر بندی کی مہلت میں توسیع پر زور دیا گیا تھا۔ یہ مہلت آج شام مقامی وقت کے مطابق 7 بجے ختم ہو رہی ہے۔ ایردوآن اور پوتین کی ملاقات سے قبل ماسکو نے شامی اراضی پر کسی بھی غیر قانونی مسلح عسکری وجود کی تشکیل کو مسترد کر دیا تھا۔ روسی وزیر خارجہ کے بیان کے مطابق انقرہ اور بشار حکومت کے درمیان بات چیت شروع کیے جانے کی ضرورت ہے۔
Published: 22 Oct 2019, 8:00 PM IST
ترکی کے ایک سینئر ذمے دار کے مطابق انقرہ حکومت ایردوآن اور پوتین کے درمیان ملاقات میں شامی حکومت کے نقطہ نظر اور آئندہ اقدامات کے بارے میں معلومات حاصل کرے گی۔ روسی صدر کے معاون یوری اوشاکوف نے بتایا کہ ان کا ملک شمال مشرقی شام میں ترکی کے فوجی آپریشن کے حوالے سے روسی وزارت دفاع کے ذریعے شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ مستقل رابطے میں ہے۔ دوسری جانب ترکی کے ایوان صدر کے ترجمان ابراہیم کالن نے ایک بار پھر ترکی کے اس موقف کو دہرایا ہے کہ علاقے سے مسلح کردوں کے مکمل انخلا کی صورت میں انقرہ حکومت شمال مشرقی شام میں اپنی فوجی کارروائیاں روک دے گی۔
Published: 22 Oct 2019, 8:00 PM IST
دوسری جانب العربیہ اور الحدث نیوز چینلوں کو بشار حکومت کی طرف سے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے دفتر بھیجے گئے خط کی کاپی موصول ہوئی ہے۔ اس خط میں ترکی کے ساتھ سرحدی علاقوں میں شامی شہریوں کی صورت حال کی شکایت کی گئی ہے جس نے ترکی کے فوجی آپریشن کے نتیجے میں جنم لیا۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی امن و سلامتی برقرار رکھنے کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے پوری کرے۔
ادھر ترکی کی حکومت کا اصرار ہے کہ بشار الاسد کے حوالے سے اس کے موقف میں کوئی تبدیل واقع نہیں ہوئی ہے ... تاہم انقرہ اور بشار حکومت کے درمیان سیکورٹی رابطوں کے بارے میں خبریں اس موقف کے متضاد حقائق پیش کر رہی ہیں۔
(بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ)
Published: 22 Oct 2019, 8:00 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Oct 2019, 8:00 PM IST