چین او راسرائیل کے درمیان حالیہ برسوں میں اقتصادی تعلقات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسرائیل دونوں ملکوں کے مابین سیاسی اور ثقافتی رشتوں کو مضبو ط کرنے کے لیے بھی کافی محنت کر رہا ہے۔ وجود میں آنے کے بعد پچھلے 72 برسوں کے دوران امریکا کو چھوڑ کر اسرائیل کے صرف چند ایک ہی دوست ممالک رہے ہیں۔ اس لیے مختلف ممالک کے ساتھ اسرائیل کی سفارتی پیش رفت، اس کی بہت بڑی سیاسی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ اپنی سفارتی پہل کے ذریعہ اسرائیل اب ہندوستان کا قریبی دوست بن چکا ہے، جو اسرائیلی دفاعی ساز و سامان کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے خلیجی ممالک حال ہی میں اس کے دوست ممالک کی فہرست میں شامل ہوئے ہیں۔ لیکن اسرائیل، چین کو اپنا سب سے اہم ترین حلیف سمجھتا ہے۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
چین اپنے بیلٹ اینڈروڈ انیشی ایٹیو (بی آر آئی) کے ذریعہ مشرق بعید سے یورپ تک تجارت پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لیے اسرائیل کو ایک اہم رابطہ کار کے طور پر بھی دیکھتا ہے۔ بی آر آئی چین کا کھربوں ڈالر کا منصوبہ ہے۔ جس کے تحت وہ ایشیاء اور مشرقی وسطی نیز افریقی ممالک کو غیر واجب الادا قرضے دے کرانہیں اپنے زیر اثر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بیجنگ اس کی آڑ میں دوسرے ملکوں کی خارجہ پالیسی کو اپنے حق میں استوار کرانے اور جن ملکوں کے امریکہ کے ساتھ فوجی تعلقات ہیں ان کی انٹلی جنس تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
اسرائیل اور چین کے درمیان تعلقات صرف اقتصادی یا دفاعی امور تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس کا دائرہ دونوں ملکوں کے عوام یا سماجی رابطوں تک بھی پھیلا ہوا ہے، جو بالآخر سیاسی قربت پر منتج ہوتی ہے۔ چینی امور کے ماہر، سنگاپور کی نیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی میں ایس راج رتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیزمیں سینئر فیلو، جیمس ایم ڈورسے کا خیال ہے کہ چین کے بین الاقوامی اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ وہ، چار ممالک اسرائیل، یونان، لبنان اور شام کے چھ بندرگاہوں کے ساتھ مشرقی بحیرہ روم پر غلبہ حاصل کرلے، اس سے نہر سویز کا ایک متبادل تیار ہوجائے گا۔ تاہم اس میں ترکی، قبرصی اور مصری بندرگاہیں شامل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ چینی فوجیوں کی موجودگی نے اس خطے میں امریکہ اور نیٹو کی حکمت عملی کے لیے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ حیفہ میں چین کی سرگرمیوں کے تئیں اسرائیل کو پہلے ہی متنبہ کرچکی ہے کیونکہ چین کی موجودگی سے امریکا کے پانچویں بحری بیڑے کے لیے بندرگاہ کے مسلسل استعمال کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
چین اپنے سیاسی مفادات کے خاطر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے مستقل گامزن ہے۔ چین کی مشرق وسطی پالیسی میں اسرائیل کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ چین نے اپنی سفارتی مہم کے تحت مختلف عرب ممالک اور ایران کے ساتھ پچھلے کئی برسوں سے اچھے تعلقات استوار کر رکھے ہیں، اس مہم میں اسرائیل کو بحری شاہراہ ریشم پروجیکٹ کا ایک اہم مرکز بناکر اپنی مشرق وسطی پالیسیوں کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ اس اعلی سطحی رابطہ کی وجہ سے ثقافتی اور علمی شراکت داری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل نے چین میں اپنی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ کیا ہے، حالانکہ وہ ایسا شاذو نادر ہی کرتا ہے۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
چین کا اسٹریٹیجک مفاد اس حقیقت پر مبنی ہے کہ اسرائیل دنیا کے سب سے بڑے کمرشیل، فوڈ اور سیکورٹی ٹیکنالوجی پاور ہاوس میں سے ایک ہے اور اسے امریکا میں زمینی سطح پر خاطر خواہ عوامی حمایت حاصل ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان پچھلے دس برسوں میں باہمی تجارت میں چار گنا اضافہ ہوچکا ہے اور سالانہ 14 ارب ڈالر کی باہمی تجارت کے ساتھ چین، اسرائیل کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن چکا ہے۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
امریکا ان تعلقات کو ایک ممکنہ خطرے کے طور پر دیکھتا ہے کیوںکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس قربت کے نتیجے میں چین اسرائیل کے ذریعہ امریکا کی جاسوسی کرسکتا ہے۔ اسرائیل اور چین کے باہمی تعلقات کے سلسلے میں امریکی فکر مندی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے حال ہی میں متعدد جدید ترین شعبوں میں اسرائیل کے انفرا اسٹرکچر، ریسرچ اور ڈیولپمنٹ میں چین کی شمولیت پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور اسرائیل کو وارننگ دی تھی کہ اگر اس نے ان سرگرمیوں سے خود کو الگ نہیں کیا تو امریکا-اسرائیل کے ساتھ اپنے سیکورٹی تعلقات پر غور کرسکتا ہے۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
امریکا نے جن امور پر تشویش کا اظہار کیا ہے ان میں شنگھائی انٹرنیشنل پورٹ گروپ کے ذریعہ حیفہ بندرگاہ کو 25 برس کے لیے چین کے آپریشنل کنٹرول میں دینا شامل ہے، جہاں امریکہ کا پانچواں بحری بیڑا کھڑا ہے۔ بعض ماہرین اسے امریکی سیکورٹی اور انٹلی جنس کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتے ہیں۔ امریکا کی تشویش یہ ہے کہ یہ بندرگاہ 60 سے زائد ملکو ں کو جوڑنے والے چین کے نئے ’شاہراہ ریشم‘ پروگرام کا بنیادی پتھر بن سکتا ہے۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
تنازع کی ایک اور وجہ چین کا ریلوے ٹنل گروپ ہے جو تل ابیب کے لائٹ ریل ٹرانسپورٹیشن سسٹم کے سلسلے میں معاہدہ کے قریب ہے۔ اسے بھی ایک بڑے سیکورٹی خطرے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ چین کا اسرائیل میں پہلا انفرااسٹرکچر پروجیکٹ کارمل ٹنل کی تعمیر تھا، اس پر بھی امریکا نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ امریکا کو خدشہ ہے کہ بیجنگ چینی کمپنیوں کی آڑ میں اپنے انٹلی جنس اہلکاروں کو مدد سے غیر معمولی انٹلی جنس تک رسائی حاصل کرلے گا، جس سے امریکی اور اسرائیلی دونوں ہی کے سیکورٹی مفادات متاثر ہوں گے۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
اسرائیل کے سامنے اگر کوئی واحد رکاوٹ ہے توصرف یہ ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات میں کسی طرح کا رخنہ نہیں چاہتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ بھی صرف یہ ہے کہ امریکا واحد ملک ہے جو مغربی کنارہ کو ضم کرنے کے اسرائیلی منصوبے کی حمایت کر رہا ہے۔ اسرائیل کو بہر حال اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات اس کے لیے کتنے سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ امریکا اسرائیلی انفرااسٹرکچر میں چینی دراندازی کی وجہ سے اپنی ان سرگرمیوں کو تباہ ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
امریکا کو ان اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں چین کی سرمایہ کاری اور مشترکہ تحقیق پر بھی تشویش لاحق ہے، جو سائبر سیکورٹی، آرٹیفیشئل انٹلی جنس اور سیٹلائٹ ٹیلی کمیونیکیشن کا استعمال کرتی ہیں اور انہیں زیڈ ٹی ای اور ہواوے جیسی چینی کمپنیاں استعمال کرسکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل کے پاس ایسا کوئی فارمولہ ہے جس سے وہ امریکا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوسکے کہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات کے باوجود امریکی مفادات متاثر نہیں ہوں گے اور دوسری طرف چین کو بھی یہ یقین دلاسکے کہ وہ ان حدود کے باوجود اسرائیلی اثاثوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
اسرائیل اور چین کے تعلقات میں پیش رفت کے خواہش مند، سائنو۔اسرائیل گلوبل نیٹ ورک اینڈ اکیڈمک لیڈرشپ (سگنل) کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر کاریس ویٹے کہتے ہیں’’مناسب اقدامات کے بغیر ہم ایک ایسی صورت حال پر غور کر رہے ہیں جس میں امریکا ہمیں یہ کہہ رہا ہے کہ ہمیں چین کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرلینے یا محدود کرلینے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی آزادی چاہتا ہے لیکن اس کے رویے سے یہ واضح نہیں ہے کہ وہ حقیقتاً امریکی تشویش کو بھی سمجھتا ہے۔‘‘
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
گوکہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اسرائیل اقتصادی طور پر پریشانیوں سے دوچار ہے تاہم اسے مختصر مدتی مالی نقصانات کے باوجود امریکا کی وارننگ پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے طویل مدتی سیکورٹی، اقتصادی اور سفارتی تعلقات کو نظر انداز نہیں کرسکتا ہے۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM IST
تصویر: پریس ریلیز