عالمی خبریں

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں دراڑیں، 50 مقامات پر لیکیج، خلا بازوں کی زندگی خطرے میں

ناسا کی ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایس ایس میں 50 جگہوں سے لیکیج ہو رہی ہے، جو خلا بازوں کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ روس نے مائیکرو وائبریشنز کی موجودگی کا دعویٰ کیا ہے

<div class="paragraphs"><p>بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں سنیتا ولیمس (فائل)، ویڈیو گریب</p></div>

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں سنیتا ولیمس (فائل)، ویڈیو گریب

 

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں موجود سنیتا ولیمس اور دیگر خلاف باز ایک نئی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ دراصل آئی ایس ایس میں دراریں آنے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ خلائی اسٹیشن میں گزشتہ 5 برسوں سے ہلکا رِساؤ (Leakage) جاری تھا، لیکن اب پتہ چلا ہے کہ کم سے کم 50 جگہوں پر رساؤ کا مسئلہ ہے۔ اس صورتحال سے ناسا کافی فکر مند ہے۔ اس سلسلے میں 'ناسا' کی ایک رپورٹ لیک ہو گئی ہے جس میں انکشاف ہوا کہ آئی ایس ایس پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ساتھ ہی سنیتا ولیمس سمیت یہاں موجود خلابازوں کی جان پر بھی خطرہ بن گیا ہے۔

Published: undefined

روس کی طرف سے آئی ایس ایس میں مائیکرو وائیبریشن کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔ 'ناسا' نے اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خلائی اسٹیشن میں بڑی مقدار میں ہوا نکل رہی ہے اور یہاں کے لوگوں کی جان بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ خلائی اسٹیشن پر موجود یویجدا ماڈیول سے سب سے پہلے رساؤ شروع ہوا تھا۔ یہ ڈاکنگ پورٹ تک جانے کے لیے ایک سرنگ ہے۔ اس کا کنٹرول روس کے پاس ہے۔ اس رساؤ کی وجہ کیا ہے، اسے لے کر ناسا اور روسی ایجنسی راسکوموس کے درمیان اتفاق نہیں بن پایا ہے۔ 'ناسا' کے خلاباز باب کیبانا نے آئی ایس ایس میں رساؤ کو لے کر گہری فکرمندی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رساؤ کو روکنے کے لیے آپریشن چلانے سے کچھ وقت کے لیے راحت مل سکتی ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے۔ امریکہ نے اسے غیر محفوظ بتایا ہے۔

Published: undefined

سب سے پہلے رساؤ کا پتہ 2019 میں چلا تھا۔ اس کے بعد اپریل 2024 سے روز 1اعشاریہ 7 کلو ہوا لیک ہونے لگی ہے۔ آئی ایس ایس میں کم سے کم 7 سے 10 خلا باز رہتے ہیں۔ حالانکہ روسی انجینئروں کے مائیکرو وائیبریشن کا دعویٰ کرنے کے بعد اس خطرے کا حل نکالنے کے لیے ناسا نے قدم اٹھایا ہے۔ یہاں موجود خلائی مسافروں کو بھی ہوشیار رہنے کی صلاح دی گئی ہے۔ روسی ٹیم بھی اس مسئلہ کے حل کے لیے کام کر رہی ہے۔

Published: undefined