جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بائیو میڈیکل مقاصد کے لیے ایک جینیاتی تبدیل شدہ بندر کے ایک ساتھ کئی کلون تیار کیے گئے ہیں۔ سائنس کی دنیا میں جینیاتی ایڈیٹنگ کے طاقتور ہتھیار سے زندگی کا ’بلیو پرنٹ‘ دوبارہ لکھا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
چینی سائنسدانوں کے مطابق اس تحقیق کو وسعت دیتے ہوئے مستقبل میں انسانوں پر بھی آزمایا جا سکتا ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق مزید تحقیق سے انسانوں میں نیند نہ آنے کی بیماری کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ یہ بیماری نفسیاتی دباؤ اور تحلل عصبی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
Published: undefined
دوسری جانب اس پیش رفت کے بعد طبی تحقیق میں ’اخلاقی حدود‘ کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوگا۔ چین کے سرکاری میڈیا پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’یہ تحقیق بین الاقوامی اخلاقی معیارات کے مطابق تھی اور جانوروں پر کی گئی ہے۔‘‘ چین کے اس اعلان کے بعد ان عالمی افواہوں کی بھی تقویت ملی ہے، جن کے مطابق چین بچوں میں جینیاتی تبدیلیاں کرنے کا خفیہ پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے۔ تازہ تحقیق کے حوالے سے دو آرٹیکل ’نیشنل سائنس ریویو جرنل‘ میں شائع ہوئے ہیں۔ ان آرٹیکلز میں ایسے تجربات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، جو شنگھائی میں واقع چینی اکیڈمی آف سائنس میں کیے گئے تھے۔
Published: undefined
گزشتہ برس نومبر میں بھی ایک چینی سائنسدان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے دنیا میں پہلی مرتبہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ بچوں کی پیدائش میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس وقت نیوز ایجنسی اے پی کی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چین میں ایسی جڑواں بہنوں کی پیدائش ہوئی ہے، جن کے ڈی این اے میں تبدیلیاں کی گئی تھیں۔
Published: undefined
اس طرح کی جین ایڈیٹنگ پر امریکا اور کئی دیگر مغربی ممالک میں پابندی عائد ہے کیوں کہ ڈی این اے میں کی جانے والی تبدیلیاں اگلی نسل تک منتقل ہو سکتی ہیں اور ان تبدیلیوں سے دیگر جینز کو بھی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ متعدد سائنسدانوں کے خیال میں یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اسے انسانوں پر آزمانا انتہائی غیر محفوظ ہے۔
Published: undefined
گزشتہ برس برطانوی طبی ماہرین پر مشتمل پینل برائے اخلاقیات نے کہا تھا کہ مستقبل میں پیدائش سے پہلے ہی بچوں کے جینز میں تبدیلیاں کرنے اور انہیں بہتر بنانے کی اجازت فراہم کی جا سکتی ہے۔ بائیو اخلاقیات پر کام کرنے والی برطانیہ کی نفیلڈ کونسل نے کہا تھا کہ اگر کسی شخص کی فلاح کا معاملہ ہو اور اسے معاشرتی سطح پر ناہمواری، تقسیم اور امتیازی سلوک سے بچانا مقصود ہو تو ایسے کسی بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کے جینز میں تبدیلیاں لانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
Published: undefined
تاہم اس پینل کی سربراہی کرنے والی اور برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی میں قانون اور اخلاقیات کی پروفیسر کیرن یونگ کا زور دیتے ہوئے یہ کہنا بھی تھا، ’’جینز میں تبدیلیاں کرتے ہوئے مستقبل کی نسل کے کردار پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
Published: undefined
ناقدین کا خبردار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی اجازت نامہ فراہم کرنے کا عمل ایک برتر انسان پیدا کرنے کے راستے ہموار کر سکتا ہے۔ قبل از پیدائش، جس بھی بچے کے جینز میں تبدیلی لائی جائے گی، اس کو باقی ماندہ انسانوں پر برتری حاصل ہو جائے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز