اس بارے میں اگرچہ سرکاری طور پر چینی حکام کی طرف سے کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے ہیں تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے شمال مغرب میں واقع صوبے سنکیانگ میں، جہاں ایغور نسل کی قومی مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد اکثریت میں ہیں، قریب ایک ملین تک مسلمانوں کو ایسے حراستی کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے۔
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
سنکیانگ میں صوبائی حکومت نے اب ایسی قانون سازی کر دی ہے، جس کے تحت مسلمانوں کے ان حراستی کیمپوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔ چینی حکمرانوں کے مطابق 10 اکتوبر کو کی جانے والی قانونی ترامیم کے تحت ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اب ان مسلمانوں کو ایسے ’تعلیمی اور تربیتی مراکز‘ میں رکھنا ممکن ہو گیا ہے۔
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
کئی مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی رپورٹوں کے مطابق یہ نام نہاد ’ٹریننگ سینٹرز‘ عملاً ایسے حراستی مراکز ہیں، جہاں گزشتہ ایک سال کے دوران قریب ایک ملین اقلیتی مسلم باشندوں کو منتقل کیا جا چکا ہے۔
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
’نظریاتی تعلیم اور نفسیاتی بحالی‘
یہ قانون سازی جس سرکاری مسودے کی بنیاد پر کی گئی ہے، اس کے مطابق چین کے مختلف صوبوں کی علاقائی حکومتیں ’’ایسے پیشہ ورانہ تعلیمی تربیتی مراکز قائم کر سکتی ہیں، جہاں ایسے افراد کی تعلیم کے ذریعے اصلاح کی جا سکے، جو شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی سے متاثر ہو چکے ہوں۔‘‘
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
لیکن حقیقت میں ایسے مراکز میں زیر حراست افراد کو بظاہر صرف مینڈیرین (چینی میں بولی جانے والی اکثریتی زبان) اور پیشہ ورانہ ہنر ہی نہیں سکھائے جاتے، بلکہ نئی قانونی ترامیم کے ذریعے یہ بھی ممکن ہو گیا ہے کہ ایسے افراد کو ’نظریاتی تعلیم، نفسیاتی بحالی اور رویوں میں اصلاح‘ جیسی سہولیات بھی مہیا کی جائیں۔
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
بیجنگ میں ملکی حکومت اس بات سے انکار کرتی ہے کہ یہ مراکز چینی مسلم اقلیت کے لیے قائم کردہ کوئی حراستی مراکز ہیں۔ تاہم ساتھ ہی حکام نے مختلف مواقع پر یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ بہت چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کو بھی ایسے مراکز میں بھیجا گیا ہے۔
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
’اسلام کی جبری مذمت‘
ان کیمپوں میں کچھ عرصہ پہلے تک زیر حراست رکھے جانے والے کئی افراد نے تصدیق کی ہے کہ انہیں دوران حراست اس امر پر مجبور کیا گیا کہ وہ بطور ایک عقیدے کے اسلام کی مذمت کریں اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اپنی غیر مشروط وفاداری کا اظہار کریں۔
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
آسٹریلیا میں میلبورن کی لا ٹروب یونیورسٹی کے چینی حکومت کے ملکی نسلی اقلیتوں سے متعلق پالیسی امور کے ماہرجیمز لائبولڈ نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’سنکیانگ میں ایسے حراستی مراکز کے قیام کے کافی عرصے بعد اب جا کر کہیں ان قانونی ترامیم کا مقصد یہ ہے کہ اس چینی صوبے میں ایغور، قزاق اور دیگر مسلم اقلیتی گروپوں کے افراد کے لاکھوں کی تعداد میں زیر حراست رکھے جانے کو جائز قرار دیا جا سکے۔‘‘
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اس سلسلے میں ایغور، قزاق اور دیگر چینی مسلم اقلیتوں کے ان افراد کے بیرون ملک مقیم بہت سے رشتہ داروں نے بھی تصدیق کی ہے کہ جب سے حکام نے ایسے حراستی کیمپ قائم کیے ہیں، یہ بیرون ملک مقیم چینی یا چینی نژاد باشندے چین میں اپنے رشتے داروں سے رابطے کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
حلال مصنوعات اور نقاب پر بھی پابندی
چین کے اس صوبے میں، جو جغرافیائی حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے بہت قریب ہے، حکام ماضی میں مسلمانوں کے استعمال میں آنے والی حلال مصنوعات کی خرید و فروخت اور خواتین کی طرف سے نقاب اور حجاب کے استعمال پر بھی پابندی لگا چکے ہیں۔
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
چینی حکومتی اہلکاروں کے مطابق چین کے اس خطے میں کئی ایسے انتہا پسند موجود ہیں، جن کے مختلف دہشت گرد گروپوں سے رابطے ہیں۔ چینی حکام اب تک اپنے ان دعووں کے حق میں چند ایک معمولی شواہد سے زیادہ حقائق سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
سنکیانگ میں ’ایغور مسلم اکثریت کا توڑ‘
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ بیجنگ میں مرکزی حکومت اور سنکیانگ میں صوبائی حکومت کی گزشتہ کئی عشروں سے کوشش ہے کہ وہ سنکیانگ کی مسلم آبادی میں بتدریج سر اٹھانے والے علیحدگی پسندی کی اس تحریک کو کچل دیں، جس کی ایک بڑی وجہ وہاں مقامی باشندوں میں پائی جانے والی بد دلی ہے۔
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
ایغور مسلمانوں میں اس بددلی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ماضی میں اس صوبے میں ایغور مسلم باشندوں کی اکثریت تھی لیکن پھر بیجنگ نے ایک باقاعدہ پالیسی کے تحت وہاں داخلی نقل مکانی کر کے آنے والے ایسے باشندوں کو آباد کرنا شروع کر دیا، جن کا تعلق ہان نسل کی آبادی سے ہے۔ مجموعی طور پر چین میں ہان نسل کے باشندوں کی اکثریت ہے۔
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST