کمائی کے دو ذرائع ہیں... ایک ایمانداری (صحیح طریقے سے) اور دوسرا بے ایمانی (غلط طریقے سے)۔ اب زیادہ تر کمائی کا ذریعہ بے ایمانی والا ہو چکا ہے۔ اس کو غلط طریقہ کہہ لیجیے یا غیر قانونی طریقہ کہہ لیجیے۔ کل ملا کر بات یہ ہے کہ محنت کسی کو کرنی نہیں ہے اور خواب گھر بیٹھے بیٹھے لاکھوں کمانے کا دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے لوگ ہر حالت میں خود کو ڈھال لیتے ہیں۔ چاہے عام دنوں کی بات ہو یا موجودہ کورونا بحران کی۔ اس وقت بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو غیر قانونی طریقے سے کمانے کے لیے تیار ہیں۔
Published: 02 May 2020, 7:40 PM IST
ایک ایسا ہی حیران کرنے والا معاملہ سامنے آیا ہے۔ دراصل انٹرنیٹ پر غیر قانونی طریقے سے کورونا سے ٹھیک ہو چکے مریضوں کے خون کی فروخت شروع ہو گئی ہے۔ کورونا کے علاج اور ویکسین کے نام پر مریضوں کے خون کو ڈارک نیٹ پر فروخت کیا جا رہا ہے۔ آسٹریلیا نیشنل یونیورسٹی (اے این یو) کی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے۔ ڈارک نیٹ پر موجود سیلر یعنی فروخت کنندگان الگ الگ ممالک سے شپنگ کر کے بیرون ممالک میں ڈیلیوری کرا رہے ہیں۔ ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق زندگی بھر کے لیے قوت مدافعت بڑھانے کے دعوے کے ساتھ کورونا مریضوں کے خون کو لاکھوں روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ ایک لیٹر خون کی قیمت 10 لاکھ روپے تک رکھی گئی ہے۔ حالانکہ خون کے ساتھ غیر قانونی طریقے سے پی پی ای، ماسک، ٹیسٹ کِٹ سمیت دیگر سامان بھی زیادہ قیمتوں پر فروخت کیے جا رہے ہیں۔ آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 12 الگ الگ ڈارک نیٹ مارکیٹ پر یہ سامان فروخت ہو رہے ہیں۔
Published: 02 May 2020, 7:40 PM IST
ڈارک نیٹ پر ایسا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا کا علاج کر رہے ڈاکٹرس کے ذریعہ پی پی ای اور دیگر سامان حاصل کیے گئے ہیں۔ فروخت کرنے والے ان سامانوں کو الگ الگ ممالک میں ڈیلیوری کرانے کو بھی تیار ہیں۔ زیادہ تر ایسے پروڈکٹ امریکہ سے جبکہ کچھ پروڈکٹ یوروپ، برطانیہ اور آسٹریلیا سے شپنگ کے لیے موجود تھے۔ کورونا سے ٹھیک ہو چکے مریضوں کے پلازمہ کے ذریعہ دیگر مریضوں کے علاج سے جڑی کچھ رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ لیکن پلازمہ تھیراپی کے خطرے بھی ہیں اور اس میں لوگوں کی جان بھی جا سکتی ہے۔ فی الحال ڈاکٹر تجرباتی طور پر کچھ خاص حالات میں ہی اس تھیراپی کو آزما رہے ہیں۔
Published: 02 May 2020, 7:40 PM IST
اس سلسلے میں تحقیق کرنے والے روڈ براڈہرسٹ کا کہنا ہے کہ وبا کے وقت کچھ لوگ مجرمانہ طریقے سے کمائی کی کوشش کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ بڑھ سکتا ہے۔ اس لیے سخت مانیٹرنگ کی ضرورت ہے تاکہ اسے بند کیا جا سکے۔ روڈ براڈہرسٹ نے مزید کہا کہ "ہم نے پایا ہے کہ غیر محفوظ ویکسین اور اینٹی وائرل دوائیں بھی ڈارک نیٹ پر لوگوں کو فروخت کی جا رہی ہیں۔ کثیر مقدار میں پی پی ای بھی فروخت ہو رہے ہیں کیونکہ بازار میں اس کی کمی بنی ہوئی ہے۔"
Published: 02 May 2020, 7:40 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 May 2020, 7:40 PM IST
تصویر: پریس ریلیز